جنرل ضیاء الحق شہید کا قادیانیوں کے لیے صدارتی آرڈیننس نمبر 20


جناب صدر جنرل محمد ضیاء الحق صاحب ایک نیک اور خدا ترس آدمی تھے۔ وہ ایک سچے مسلمان حکمران تھے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی استعمال کرنے سے باز رکھنے کے لیے 26 اپریل 1984ء کو ایک صدارتی آرڈیننس نمبر 20 جاری کیا جس کی رُو سے قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے ، نہ اپنے مذہب کے لیے اسلام کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو ’’حقوق انسانی‘‘ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پوری دنیا میں شور مچایا۔ تمام اسلام اور پاکستان دشمن طاقتیں بالخصوص بھارت اور مغربی میڈیا ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے لیکن مسلمانان پاکستان کے دینی جذبے اور اتحاد کی بدولت قادیانیوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ قادیانیوں نے اس آرڈیننس کو منسوخ کروانے کے لیے وفاقی شرعی عدالت ، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی چیلنج کیا مگر منصف جج صاحبان نے نہ صرف متفقہ طور پر اس صدارتی آرڈیننس کو درست قرار دیا بلکہ اسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 بی اور 298 سی کا مستقل حصہ بنا کر قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ 30اپریل 1984ء کو قادیانی جماعت کا سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی اس صدارتی آرڈیننس مجریہ 1984ء کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے ڈر کر لندن چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر ایک رات لندن میں اس نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’بیت الفضل‘‘ سے ملحقہ محمود ہال میں غصہ سے آگ بگولہ ہو کر جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر معروف سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام ، مرزا طاہر احمد کے بالکل سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ مرزا طاہر نے اپنے خطاب میں امتناع قادیانیت آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984ء ( جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر تنقید کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے منافی قرار دیا۔ اس نے کہا کہ احمدیوں کی بد دعا سے عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اور اس نے امریکا اور دوسرے یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی ہر قسم کی اقتصادی امداد بند کر دیں۔ اپنی اس تقریر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو کہا کہ ’’آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لئے تشریف لائیں، آپ سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام ملاقات کے لیے حاضر ہوگیا۔ اس ملاقات میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو صدر ضیاء الحق سے ملاقات کر کے اس آرڈیننس کو ختم کروانے کی ہدایت کی۔ چنانچہ چند دن بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل محمد ضیاء الحق سے ایوان صدر میں ملاقات کر کے انہیں قادیانی جماعت کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیاء الحق بڑے تحمل اور توجہ سے ڈاکٹر عبدالسلام کی باتیں سُنتے رہے پھر اچانک اٹھے اور الماری سے قادیانی قرآن ’’تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات‘‘ اُٹھا لائے اور ڈاکٹر عبد السلام کو دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ آپ لوگوں کا قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی اصل آیات کو بدلا گیا ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر اُس کے سامنے رکھ دیا۔ اس صفحہ پر یہ عبارت درج تھی: انا انزلناہ قریبا من القادیان ۔ ترجمہ: ’’(اے مرزاقادیانی) یقیناً ہم نے قرآن کو قادیان (گورداس پور بھارت) کے قریب نازل کیا‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات، ص59 طبع چہارم از مرزا قادیانی) پھر اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ (نعوذ باللہ!) اس کے بعد ضیاء الحق نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ڈاکٹر ! یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اب تم خود بتاؤ کہ قادیانیوں کی اسلام دشمن سر گرمیوں کو روکنا درست ہے یا غلط ؟‘‘ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، وہ بے حد شرمندہ ہوا اور کھسیانا ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر چلا گیا۔ ایک موقع پر صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نبوت اور وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ ختم نبوت اور ختم وحی کا مطلب یہ ہے کہ شعور انسانی اب اس درجہ پر پہنچ چکا ہے کہ اب اسے صراط مستقیم پر چلنے کے لیے آخری کتاب قرآن مجید اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی کی راہنمائی کی ضرورت نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوت درجہ کمال کو پہنچ گئی اور جب کوئی چیز درجہ کمال کو پہنچ جائے تو کسی اضافے اور تکرار کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قرآن نبوت کے کمال درجہ پر پہنچ جانے کا اعلان ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت کا ہر مدعی کاذب ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے کو صاحب شریعت یا مجدد ماننے والے گمراہ اور غیر مسلم ہیں۔ قادیانیت کا وجود عالم اسلام کے لیے سرطان کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت پاکستان مختلف اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اس سرطان کا خاتمہ کیا جائے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ انھوں نے مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا پردہ چاک کیا اور دنیا کو اس کے فریب سے آگاہ کیا۔ ختم نبوت کا عقیدہ نہ صرف ملت اسلامیہ کے ایمان کا بنیادی نکتہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے دین اور رحمت کی تکمیل کا عالمی پیغام ہے۔ قادیانیوں کے سامنے دو راستے کھلے ہیں یا تو وہ اسلام قبول کر لیں اور اپنی غلطیوں اور گستاخیوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں یا پھر اقلیت بن کر رہیں اور اپنی اقلیتی حیثیت کو تسلیم کر لیں۔ قادیانیوں کے بارے میں آرڈیننس نافذ کر کے حکومت نے نہ صرف اسلام کی عظمت کی بحالی کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر دیا ہے بلکہ اس نے معاشرے کی خرابیوں کو دور کرنے کا بھی تہیہ کر رکھا ہے۔ ہمیں اصل خطرہ انہی منافقوں (قادیانیوں) سے ہے جو مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر ہماری صفوں میں گھسے ہوئے ہیں۔‘‘ فتنہ قادیانیت کے خلاف صدر ضیاء الحق کی ان خدمات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے انعام و اکرام کی ایسی بارش فرمائی کہ 1986ء میں جب وہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب گئے اور نماز عشاء کے وقت نماز باجماعت کے لیے صف بندی ہو رہی تھی۔ امام کعبہ نے دیکھا کہ پہلی صف میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کھڑے ہیں تو انھوں نے صدر کا ہاتھ پکڑ کر انھیں آگے مصلیٰ پر کھڑا کر دیا اور خود پیچھے ہٹ کر ان کی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ مسلمانوں کے امام تو آپ ہیں۔ پھر مائیک پر کہا کہ آج ہم عالم اسلام کے ایک عظیم مجاہد کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اس پر صدر ضیاء الحق کی حالت غیر ہو گئی۔ قدم لڑکھڑانے لگے ، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور گلا رندھ گیا۔ انھوں نے سورۃ فاتحہ بھی مشکل سے مکمل کی اور مختصر سورتوں کے ساتھ نماز اس طرح پڑھائی کہ دوران نماز ان کے بے ہوش ہو جانے کا اندیشہ پیدا ہوتا رہا۔ بعدازاں اُن کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھول دیا گیا جہاں وہ جذبات تشکر سے اپنے رب کے حضور خوب گڑگڑائے۔ بعدازاں جب وہ مدینہ طیبہ حاضری کے لیے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو ان کے لیے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ بھی کھول دیا گیا جہاں وہ ادب و خاموشی سے بہت دیر تک روتے رہے۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ فوج آئی ایس پی آر نے قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر نغمہ ریلیز کرتے ہوئے تصویر قادیانی ملعون عبدالسلام کی لگا دی جس نے پاکستان بننے پر لعنت بھیجی تھی آخر محسن پاکستان اور مسکین صفت ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فراموش کر کے ایک قادیانی ملعون کی تصویر کیوں لگائی جاتی ہے ؟؟؟

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟