مفتی طارق مسعود نے ختم نبوتؐ کے معاملے میں شیخ رشید کی تعریف کیوں کی

تین اکتوبر 2017 کو مسلم لیگ نون نے اپنے نااہل وزیراعظم کو پارٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے اہل بنانے کے چکر میں عقیدہ ختم نبوتؐ کی شق میں بھی چوری چوری ترمیم کر ڈالی . سننے میں آیا ہے کہ یہ بل سب سے پہلے سینٹ میں پیش ہو کر بعد میں قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے لایا گیا . بل میں عقیدہ ختم نبوت کی شق میں تبدیلی دیکھ کر شیخ رشید صاحب کی قوت ایمانی جاگ اٹھی اور ہم نے ویڈیو میں اس مرد مجاہد کی للکار کو اپنے کانوں سے سنا اور ہمیں اس گئے گزرے دور پر بھی فخر ہے کہ ہم جس دور میں رہتے ہیں یہاں شیخ رشید جیسے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی موجود ہیں . اگر خدانخواستہ شیخ رشید صاحب اسمبلی ممبر نہ ہوتے یا اس اہم موقع پر مولانا فضل الرحمان کی طرح چپکے سے سعودی عرب چلے جاتے تو یہ بل تو آٹومیٹک پاس ہو جانا تھا . جہاں تمام عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے شیخ رشید صاحب کی اس دینی کاوش کو پسند کیا اور اپنا ہیرو سمجھتے ہوئے اس کی اس عمل کی تعریف کی وہاں کراچی کی جامعة الرشید کے حق گو اور ہر دلعزیز درویش صفت مفتی طارق نسعود صاحب نے بھی شیخ رشید صاحب کے اس دینی کارنامے کی دل سے تعریف کی جو جو جمعیت والوں کو بالکل پسند نہ آئی اور زبردستی مفتی صاحب سے ایک بیان دلوایا کہ اس مشن کا اصل کریڈٹ تو جمعیت کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کو جاتا ہے جس نے سینٹ میں سب سے پہلے اس بل کے خلاف آواز اٹھائی ۔ یہاں میں اپنی بھولی قوم کے سامنے ایک سوال بھی رکھتا جاؤں کہ سینٹ میں اٹھنے والی آواز قومی اسمبلی میں کیوں نہ اٹھ سکی ؟ حافظ حمد اللہ اسمبلی کی کاروائی کے وقت کیا کھا رہے تھے کہ اس کا منہ اتنا بھر چکا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں خاموش رہے ۔ پہلا سوال تو اپنی بھولی عوام سے تھا اور میرا سوال ملک بھر کے مایہ ناز علماء کرام اور مفتیان کرام سے ہے کہ ایک آدمی یا جماعت کو پتا بھی چل چکا تھا کہ ایک بہت بڑا سنگین جرم ہونے جا رہا ہے اور جان بوجھ کر پھر اس کے حق میں ووٹ بھی جس فرد یا جماعت نے ووٹ ڈالے اور وہ فرد یا جماعت علماء کی بھی ہو تو اس پر کون سا فتوٰی لگے گا ؟ کیونکہ ایک جاہل یا لاعلم ہوتا ہے کہ جسے کسی کام کے صحیح یا غلط ہونے کا علم ہی نہ ہو رہا اور وہ اس کام کو کر لے تو میری ناقص رائے کے مطابق اس شخص پر زیادہ ملامت نہیں کی جائے گی کیونکہ وہ لاعلم ہے گو اسے بھی علم حاصل کرنا چاہیے ایسے علم یا علماء کا کیا فائدہ جو اپنے مفاد کی خاطر جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز کرنے کے لیے ہر وقت کرایہ پر دستیاب ہوں ۔ خبردار ! کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں شیعہ ، بریلوی یا اہل حدیث میں سے ہوں ۔ میرا تعلق بھی مسلک دیوبند سے ہے بس فرق یہ ہے کہ میں ایک عام پاکستانی محب وطن ہوں اور غیر سیاسی آدمی ہوں ۔ اور میرا اس پر بھی یقین ہے کہ اگر آدمی ضمیر فروش نہ ہو تو سیاست کو بھی عبادت بنایا جا سکتا ہے مگر ایسی عبادت کا کیا فائدہ کہ ایک اسلامی جمہوری ملک کے قانون میں عقیدہ ختم نبوتؐ میں ترمیم کی جا رہی ہو اور ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت کے لیڈر کو عمرہ کرنا یاد آ جائے ۔ اندرونی ملی بھگت تھی یا نہیں یہ تو قیامت والے دن ہی پتا چلے گا کیونکہ یہاں تو قانون اور عدالتیں خریدی یا بیچی جا سکتی ہیں مگر وہاں نہ 1973ء والا آئین ہو گا اور نہ ہی قانون و آئین سے کھلواڑ کرنے والوں کا کوئی بس چلے گا ۔ کما فی القرآن الکریم فانتظرو انی معکم من المنتظرین

Comments

Popular posts from this blog

امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید صاحب کو خراج عقیدت

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

علامہ خادم رضوی کی حلال گالیاں