شاہزیب قتل کیس کیسے اختتام پذیر ہوا


24 دسمبر 2012 کی سردیوں کی رات میں ایک فیملی اپنی بہن کے ولیمے کے بعد اپنے گھر کو واپس آ رہی تھی کہ راستے میں سندھ کے تالپور گھرانے سے تعلق رکھنے والے سراج تالپور نے ان میں سے ایک لڑکی کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ لڑکی کے بھائی، شاہزیب خان نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا تو تھوڑا بہت جھگڑا بھی ہوا مگر سراج تالپور کو وہاں سے جانا پڑا۔ پھر سراج تالپور اپنے دوست شاہ رخ جتوئی اور دو مزید دوستوں کو لے کر ان کے گھر پہنچ گیا اور وہیں سب کی آنکھوں کے سامنے شاہزیب خان کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے سیدھے فائر کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ مقتول شاہزیب کا والد ڈی ایس پی تھا ، مقدمہ چلا اور ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ گواہ وغیرہ سب موقع پر موجود تھے سیشن کورٹ کے جج نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو پھانسی جبکہ اُن کے دوسرے دو ساتھیوں کو معاونت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔ یہ معاملہ چونکہ سندھ کے دو اونچے خاندان جتوئی اور تالپور گھرانوں کا تھا اور ایسے ہی ختم ہوجاتا تو پھر ہمارے ملک کو پاکستان کون کہتا ؟ چنانچہ مقتول کے والد پر دباؤ ڈالنا شروع کیا گیا۔ اُسے دھمکی دی گئی کہ اگر ہمارے بیٹے نہ رہے تو تمہاری بیٹیوں کو بھی ایک ایک کر کے سر بازار ننگا کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ چونکہ شاہزیب کے قتل کے بعد اب اُن کا کوئی دوسرا بھائی نہیں تھا اِس لیے شاہزیب خان کے مجبور والدین کو مجبوراً ایک معافی نامے پر سائن کر کے عدالت جمع کروانا پڑا جس میں انہوں نے اپنی خوشی اور اللہ کی خاطر تمام مجرمان کو معافی دینے کا اقرار کیا۔ لیکن بس اتنا کافی نہ تھا کیونکہ قتل کے ان مجرمان کے خلاف دہشتگردی کی دفعہ بھی لگی ہوئی تھی جسے کوئی انفرادی طور پر معافی دے کر ختم نہیں کروا سکتا۔ اس لیے پھر تالپور اور جتوئی گھرانوں نے اپنے سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ذریعے استغاثہ کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف عدالت میں دہشتگردی کی دفعہ ختم کرنے کی رٹ دائر کی گئی جس کے جواب میں حکومت سندھ نے لچک دکھاتے ہوئے انتہائی کمزور بیان داخل کیا جس کے نتیجے میں چند ماہ پہلے سندھ ہائیکورٹ دہشتگردی کی دفعہ بھی ختم کر دی۔ اب ایک بار پھر نئے سرے سے معافی نامہ جمع کیا گیا اور چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ چاروں ملزمان پورے 5 سال بعد رہا ہو گئے۔ یہاں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ مقدمہ شاہزیب خان کے والد کی معافی سے ختم ہونا چاہیئے تھا؟ کیا یہ مقدمہ صرف مقتول کے والد کا تھا ؟ کیا اس میں خود حکومت مدعی نہیں تھی ؟ کیا کروڑوں روپے کی مالیت رکھنے والوں کے لیے کوئی الگ قانون ہے ؟ اب سُننے میں آیا ہے کہ شاہزیب کی فیملی ایسا ملک ہی ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں کا بھٹو بندے مارتا ہے اور شیر کھاتا ہے۔ Bye Bye Pakistan

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟