پاکستانی علماء کرام کی سیاست اور بے چاری عوام

جب پہلی بار مختلف نظریے کی مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنائی تو مولانا اعظم طارق شہید صاحب نے بھی اس میں اس شرط پر شرکت کا اظہار کیا تھا کہ اگر اس مجلس سے شیعہ کو نکال دیا جائے تو ہم اس میں شرکت کے لیے تیار ہیں مگر اُن کی یہ شرط قبول نہیں کی گئی کیونکہ ان کے پاس ایمان کی قوت اور علمِ دین تو تھا مگر اسمبلی کی اتنی نشستیں نہیں تھیں جتنی شیعوں کے پاس تھیں تو مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کی زیادہ سیٹوں کی وجہ سے شیعوں کو ہی اس مجلس عمل میں رکھا اور ایک حق گو اور پکے سچے مومن کو ٹھکرا دیا۔ جس کی وجہ سے آج تک غیر سیاسی دیوبند علماء کرام اور عوام میں بہت زیادہ غم اور غصہ پایا جاتا ہے اور سوشل نیٹ ورک پر ایک ہی مسلک کے لوگ آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں جس کی ساری کی ساری وجہ صرف اور صرف مولانا فضل الرحمان کی خود غرضی ہے۔ جہاں اُن کی غرض پوری ہوتی نظر آتی ہے وہیں گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر نئی بننے والی حکومت کے ابتدائی چند ماہ اُس حکومت کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں مگر تھوڑے ہی عرصے میں اس حکومت کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی بار بننے والی حکومت میں فتوٰی دیا کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں حرام ہے ، پھر اسی بے نظیر سے دو گھنٹے بند کمرے میں ملاقات کے بعد اتحاد کر کے باہر نکلے۔ پرویز مشرف کی اسلام دشمن پالیسیوں کے باوجود اس کے بھی اتحادی رہے۔ یہ ہے تو بہت حیرانی والی بات کہ پرویز مشرف نے امریکہ کی ایک کال پر پاکستان میں فوجی اڈے دے کر افغانستان میں ایک مثالی اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا اور اسلام کے نام پر بننے والی جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان پرویز مشرف کے حمایتی رہے۔ مسجد و مدارس کی بات کرنے والے مولانا فضل الرحمان اپنے ہی مسلک کی لال مسجد اور مدرسہ جامعہ حفصہؓ کو نہ بچا سکے۔ سیاست تو ہونی چاہیے مگر شریعت کے نیچے ہونی چاہیے اور اسلام آباد کی بات بھی ہونی چاہیے مگر اولین ترجیح اسلام ہی ہونی چاہیے۔ جب ترجیحات الٹ ہو جاتی ہیں تو پھر آدمی کی اپنی قدر و قیمت بھی کم ہو جاتی ہے تب ہر آدمی کہہ رہا ہوتا ہے آج پٹرول کی قیمت دو روپے ، مٹی کے تیل کی قیمت تین روپے اور ۔ ۔ ۔ ۔ کی قیمت تو پورے پانچ روپے ہی کم ہو گئی ہے۔ میری مولانا فضل الرحمان سمیت تمام علماء کرام سے گزارش ہے کہ آپ سیاست ضرور کریں مگر صاف سُتھری سیاست کریں اور اپنے آپ کو شکوک و شبہات والی جگہوں سے بچائیں کیونکہ اسلام بھی یہی کہتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی سیاست چمکاتے رہیں اور عوام آپس میں لڑتے لڑتے آپ کو بھی گالیاں دے رہے ہوں۔ خُدارا ! آپ اپنی سیاست سے عوام کو گنہگار ہونے سے بچائیں۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ اگر آپ ان کو شکوک و شبہات اور گالیوں کا موقع دے رہے ہیں تو اُن کے ساتھ ساتھ آپ بھی اس گناہ میں اُن کے برابر کے شریک ہوں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟