ماں


آج جب عصر کی نماز سے قبل مدرسے سے چھٹی ہوئی ۔ ایک دوست سے ملنے کے لیے مدرسے سے باہر مین روڈ پہ پہنچا ۔ جونہی G 10 مرکز میں پہنچا تو اذان عصر شروع ہو گئی ۔ بغیر نماز ادا کیے وہاں سے گاڑی پہ بھیٹنا مناسب نہ سمجھا ۔ حالانکہ وہاں سے کراچی کمپنی قریب ہی ہے ۔ بہرحال مسجد کے ساتھ باہر پارک میں کھڑا تھا کے اذان کے فوراً بعد اعلان ہوا ۔ حضرات ! ایک بچی جو اپنا نام عائشہ بتاتی ہے ، جس کی عمر تین سال ہے ، جس کی بھی ھو وہ ، بابری مسجد سے آکر بچی کو لے جائے ۔ میں غیر اختیاری طور پہ ادھر ادھر دیکھنا شروع ہو گیا کہ میری نظر گلی سے باہر نکلتی ہوئی ایک خاتون پہ پڑی جس کی حالت نا قابل دید تھی وہ اپنا سینہ ملتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے مسجد کی طرف لپکنا چاہتی تھی ۔ مسجد اور اس کے درمیان میں شارع حائل تھی ۔ جس پہ پے در پے گاڑیاں رواں تھیں اور وہ اتنی جلدی میں تھی کہ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ وسط روڈ کود نہ پڑے اور بچی ملنے کی خوشی میں اپنی ہی زندگی کو خطرے سے دوچار نہ کر دے ۔ مین نے سامنے سے آواز دی ۔ خالہ جان ۔ آپ صبر کیجیے ، گاڑیوں کو رکنے دیں یا کم ہونے دیں آپ کی بچی آپ کو مل جائے گی۔ اب مسجد سے وہ کہیں نہیں جاتی۔ لیکن وہ تھی کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص اس کی اس بے تابی کو دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اور اسے ہاتھ سے پکڑ سے تیز رفتار گاڑیوں کے بیچ سے نکال لایا۔ جب وہ اس جانب ہمارے قریب پہنچی تو ہر شخص کی نظر اسی پر تھی۔ میں بھی غور سے یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا ۔ اس کے چہرے کا رنگ بلکل اُڑ چکا تھا ، اس کے قدموں میں چلنے کی سکت باقی نہ تھی ، آنکھون سے آنسوؤں کا سیلاب جیسے روانہ ہو۔ وجود سارا کپکپی سے دوچار تھا۔ اتنے میں ایک دوسرا شخص اسے سہارا دے کے جب مسجد کے مؤذن صاحب کے پاس لے گیا ۔ جب اس نے بچی کو دیکھا تو واللہ یہ لمحہ قابل دید تھا۔ بچی کو سینے سے لگا کر خوب پیار کیا۔ کچھ دیر کے لیے تو خود اس کے جسم میں جان ہی نہیں پڑ رہی تھی ۔ اس کی پیشانی عرق آلود تھی۔ وہ ایک کنارے پہ بیٹھ گئی۔ جب چل سکنے کی ہمت اس نے محسوس کی تو وہ وھاں سے کھڑی ہوئی۔ بچی سے باتیں کرتے ہوئے اور بار بار پیار کرتی ہوئی واپس اسی گلی سے اندر چلی گئی۔ قارئین کرام ! اس واقعے نے جیسے مجھ جیسے گنہگار پہ قیامت ڈھا دی ہو۔ میرا دل موم کر دیا ، میرے خیالات میں تبدیلی آگئی ، اور جب یہ قصہ تمام ہوا تو میں پہلے والے سارے خیالات کو محو سمجھ رہا تھا۔ اور دل میں یہ خیال بار بار کھٹک رہا تھا کہ ایک یہ ماں ہے اور ایک میری ماں بھی ہے۔ نہ جانے میری ماں کو میری پروش کرتے ، پروان چڑھاتے اور آج اس نہج تک پہنچاتے کتنی مشقتیں اٹھانی پڑھی ہون گی۔ کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو گا ، اللہ کی قسم میں خود رونا شروع ہو گیا ۔ جی ہاں ! میرے بھائیو آج جب ہم جوانی کے ایام گزار رہے ہیں یا گزار چکے ہیں۔ ہمارے پاس ہمارے دوست احباب کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ کسی کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوگی تو کسی کو حسن و جمال پہ گھمنڈ ہو گا ، کسی کے پاس تعلیم ہو گی تو کسی کے تعلقات بڑی سطح پہ ہون گے۔ الغرض اس عمر میں ہم اکیلے نہیں رہتے۔ اٹھنا بیٹھنا ہمارے دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہماری ہر مجلس گپ شپ اور ہنسی خوشی سے پر ہوتی ہے ۔ لیکن ہماری زندگی کی پہلی مجلس ہماری ماں کی گود تھی۔ اگر آج ہم دوستوں کے لیے تو وقت نکال سکتے ہیں اور ہماری اول مجلس ، اول تربیت گاہ کی معلّمہ اور مربیہ کے لیے ہمارا وقت نہیں نکل سکتا۔ تو یقین جانیے ہم تاریخ کے بد ترین انسان ہیں۔ وقت نکالنا تو دور میں چشم دید کئی ایسے واقعات کا شاہد ہوں کہ والدہ کےساتھ ایسی بد تمیزی اور بد اخلاقی سے پیش آیا جاتا ہے۔ یہ لفظ مناسب تو نہیں لیکن حالات شاھد ہیں کہ ایسا ایک نوکرانی سے بھی رویہ نہیں رکھا جاتا۔ دنیا میں سب سے سچا رشتہ اور سب سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی رشتہ ہے تو وہ ماں کا ہے۔ اس لیے آج سے عہد کیجیے کہ ان شآء اللہ والدین کا بھرپور خیال رکھیں گے۔ چلو پھر آج سب اخلاص سے سچے دل سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! آج سے پہلے ہم نے والدین کیساتھ جس طرح کی بد سلوکی کی ہے ، ہمیں معاف فرما اور آئندہ ہمیں والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت کی زندگی گزارنے کی اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما ، اور جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں اُن کی مغفرت فرما۔ اور ہمیں ان کیلیے صدقہ جاریہ بنا۔ آمین السلام ۔ _____________________________________________ حافظ عثمان وحید فاروقی

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟