مولانا فضل الرحمان شیعہ کو مسلمان کہنے والا اپنا بیان واپس لے


ہمیں بہت ہی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے جب سے مولانا نے شیعہ کو اسمبلی میں مسلمان کہا ہے بڑے بڑے علماء جبے قبے والے مولانا کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی ملی یکجہتی کی مثال دیتا ہے اور کوئی مولانا اعظم طارق شہید رحمة اللہ کی ۔ کسی کو یہ اخلاقی جرآت نہ ہوئی کہ وہ اس بیان کی مذمت کر سکیں ۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے پہلے اس منصوبے کی پلاننگ کی گئی ہے تاکہ سُنیوں کے ایمان کو ترازو میں تول کر اندازہ لگایا جا سکے کہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد اب شاید تھک چکے ہوں یا شیعت کے کُفر کے فتوے میں کچھ تبدیلی واقع ہو چکی ہو۔ گویا مولانا نے جو کہہ دیا وہ حدیث ہو گئی اس سے پہلے علماء نے جو فتوے دیئے وہ سارے غلط تھے۔ حالانکہ اس سے پہلے جو بھی اتحاد ہوتے رہے ہیں ہم نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ اور آئندہ بھی جو ہوں گے اس سے بھی اعتراض نہیں اعتراض مولانا کے بیان پر ہے جس میں مولانا نے صرف شیعہ کو مسلمان ہی نہیں کہا بلکہ اُنہوں نے اُن شہداء سے غداری کر دی جنہوں نے ناموس صحابہؓ کے لیے اپنی جانیں لٹا دیں افسوس اس بات پر اور زیادہ شدت سے ہوتا ہے کہ مذہبی کارکن بھی اتنے بے دین ہو گئے کہ ہر جھوٹ کو سچا بنانے کے دلائل دیتے ہیں اور اگر کوئی مولانا کے اس بیان کی مذمت کرتا ہے تو اُسے گالیاں تک سہنی پڑتی ہیں۔ کئی دنوں سے یہ طوفان بدتمیزی جاری و ساری ہے۔ اور کئی بار میں خُود بھی جمعیت کے جیالوں کی گالیوں کا نشانہ بن چُکا ہوں جو دلائل کے بجائے سیدھی گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں اتنی جرات کیسے ہوئی کہ تم نے اتنے بڑے رہنما کے خلاف لب کشائی کی ہے جبکہ اُن اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ اُن کا یہ لیڈر اُن کو اسمبلی میں مسلمان کہہ رہا ہے جن کے کُفر میں شک بھی نہیں ہے اور اُن کے اس سیاسی پنڈت کے والد محترم مفتی محمود صاحب بھی شیعت کے کفر پر فتوٰی دے چُکے ہیں۔ جمہوریت اسلام کے خلاف کافروں کا بنایا ہوا نظام ہے ۔اس سے خیر کی توقع بالکل بے کار ہے جبکہ اُن کے لیڈر کے زندگی بھر کے الفاظ کو اگر جمع کیا جائے اسلام اور شریعت کے مقابلے میں جمہوریت ہی جمہوریت اور 1973ء کے آئین کی ہی باتیں ملیں گی۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟