پردیسی کی زندگی

آج کل اکثریت کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر کسی دُوسرے ملک چلے جائیں تاکہ وہاں سے ڈھیر سارا پیسہ اور مال لے آئیں مگر اُس بیچارے کو ملتا وہی ہے جو اُس کے نصیب میں ہوتا ہے۔ خواہ وہ ہزاروں لاکھوں ہی کما رہا ہو مگر پھر بھی اُس کے پاس وہی رہنا ہے جو اس کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔ ہر ماہ ہزاروں لاکھوں کمانے والا پردیس میں گدھے اور گھوڑے کی سی زندگی گزارتا ہے۔ پردیس میں جو رُوکھا سُوکھا مل جاتا ہے بیچارہ کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اور کام کے لیے بھاگتا رہتا ہے۔ پردیس کی زندگی میں وہ عزت و آسائش نصیب نہیں ہو سکتی جو وطن میں ہوتی ہے۔ پردیس جانے والا ہر نیا آدمی شوق اور نئی اُمنگوں کے ساتھ پردیس جاتا ہے مگر تھوڑے ہی عرصے میں اُس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ میں خود بھی پردیس میں ہوں یہ سب کچھ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں لکھ رہا ہوں۔ یہاں میں نے ماہانہ لاکھوں روپے کمائی کرنے والے دیکھ رہا ہوں مگر اِن کے چہروں پر وہ خوشی نظر نہیں آتی جو میرے وطن میں ایک چھابڑی یا ریڑھی والے کے چہرے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ پردیسی آدمی صرف پردیس کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ تو وہ اچانک کسی خُوشی میں شریک ہو سکتا ہے اور نہ ہی غمی میں ۔ اچانک کمپنی وغیرہ سے چھٹی لینے اور ائیر ٹکٹ لینے میں بہت زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔ چند ماہ چُھٹی لے کر دیس آنے والا تو دیس کے ذرّے ذرّے کو دیکھ کر اور اپنے عزیز رشتہ داروں سے ملتا ہے تو اُس کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھتا ہے جسے دیکھ کر اہل وطن سمجھتے ہیں کہ شاید یہ پردیس میں بھی ایسی ہی خوش و خُرم زندگی گزارتا ہے۔
<script type='text/javascript' src='//p260830.clksite.com/adServe/banners?tid=260830_502175_10&type=floating_banner&size=130x130'></script>

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟