مولانا فضل الرحمان کی شیعہ دوستی اور بے چارے ووٹر

چونکہ مولانا فضل الرحمان کی زندگی کا مشن صرف اور صرف جمہوریت اور اسلام آباد ہی رہ گیا ہے اس لیے شریعت یا نفاذ اسلام محض حصول ووٹ کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے اور حصول ووٹ کے لیے تو مولانا فضل الرحمان ہر حد سے گزر سکتے ہیں یہ بات مولانا کے مخالف بھی جانتے ہیں اور ان کے حمایتی بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ چنانچہ ووٹ کے حصول کے لیے مولانا فضل الرحمان کے منہ سے اب یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ شیعہ مسلم کیمونٹی ہیں۔ ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ میں تو ڈیرہ اسماعیل خان کا رہنے والا ہوں وہاں اکثریت یا تو بریلوی مکتب فکر کے لوگوں کی ہے یا پھر ایک بہت بڑی تعداد شیعہ کیمونٹی کی ہے۔ اس کیمونٹی سے میں ووٹ لیتا ہوں اور میں کامیاب ہوتا ہوں۔ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے وہ دوبارہ کہتے ہیں کہ انہی سے ووٹ لیتا ہوں اور کامیاب ہوتا ہوں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ میں اُن کو انسان سمجھتا ہوں۔ اور اُن کے انسانی حق کو تسلیم کرتا ہوں اور میں ان کی نمائیندگی کرتا ہوں پارلیمنٹ میں تو اس ایمان اور عقیدے کے ساتھ کرتا ہوں کہ میں اُن سب کی امانت ہوں اور اُن کی امانت میرے پاس ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ رویے تبدیل کر لو ، اچھی سلام علیک کرو ، اچھے نام سے ایک دوسرے کو بُلاو ، گھر میں بُلا کر کھانا کھلاو ، چائے پلاو تو اُس کو بھی حیاء آئے گی۔ ناراض نہیں ہونا میں مولانا فضل الرحمان کو بولتا ہوں کہ تُو بڑا کنجر آدمی ہے ، تیری ماں کی ایسی تیسی تو کیا مولانا خُود یا اُن کا کوئی حمایتی مجھے اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلائے گا یا چائے پلائے گا ؟؟؟ ہرگز نہیں۔ جب مولانا صاحب اتنے معزز ہیں کہ وہ خُود یا اُن کے حمایتی اُن کے خلاف گالی ہی برداشت نہیں کر سکتے تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجعین معزز نہیں ہیں ( نعوذ باللہ من ذالک ) کاش ! مولانا فضل الرحمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو زیادہ نہیں تو اپنے جتنا معزز ہی سمجھ لیتے یا اُن کے حمایتی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مولانا فضل الرحمان جتنا ہی معزز مان لیتے تو بھی وہ ایسی گِری ہوئی باتیں نہ کرتے پھرتے۔ اگر عمران خان مولانا فضل الرحمان کے خلاف ایک بھی لفظ بول دے تو مولانا صاحب اُسے فوراً یہودی ایجنٹ بول دیتا ہے اور شیعہ دن رات صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کے خلاف بھونکتا رہے تو کوئی بات نہیں۔ مولانا فضل الرحمان اُن کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولے گا۔ وجہ صرف اور صرف ووٹ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بس ! اس لیے کبھی کبھی میں بہت سوچتا ہوں کہ جو آدمی صرف سیاست کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیتا ہے تو سیاست اُس سے اُس کا ایمان تک چھین لیتی ہے۔ وہ بھی ایک وقت تھا کہ جب میں جیل میں تھا اور میرا ایک دوست جو خود بھی مولانا تھا وہ جب مولانا فضل الرحمان کی شیعہ نواز پالیسیوں سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کرتا تو میں اُسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیتا کہ جو بھی ہو مولانا فضل الرحمان عالم دین تو ہے اور بعض مرتبہ تو ہماری آپس میں تلخ کلامی بھی ہو جاتی تھی مگر اب مجھے بہت پچھتانا پڑ رہا ہے کہ میں ہی غلط تھا کہ کسی غلط آدمی کی غلط پالیسیوں کا دفاع کرنا عین اسلام سمجھتا تھا۔ پھر بھی اللہ کا لاکھ لاکھ بار شکر ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے مجھے حق اور اہل حق کی راہ دکھا دی۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟