وزیراعظم آزاد کشمیر سے مؤدبانہ گزارش


وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر صاحب ایک نظر ادھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزت مآب راجہ فاروق حیدر صاحب وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر۔ میں چند گزارشات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ بات آپ کے علم ہے کہ رنگلہ غربی باغ کا اہم ترین علاقہ ہے اور ماضی میں ریاست کے اندر حکومت سازی میں اس علاقہ کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ الیکشن کے دنوں میں غربی باغ کی پوری قیادت کی الیکشن مہم کا مرکز یہی علاقہ ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ رنگلہ نہ صرف تحریک آزادی کا بیس کیمپ رہا ہے بلکہ سینکڑوں شہداء کا وارث بھی ہے۔ اس علاقہ کے لوگ انتہائی خودار ، نڈر اور بہادر ہیں۔ علاقہ رنگلہ نے بے شمار پڑھے لکھے رجال پیدا کئے جنہوں نے آزاد کشمیر بھر کے مختلف محکموں میں اپنی نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ جناب عالی! علاقہ رنگلہ کے لوگوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے اور تعلیم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کا غریب ترین شخص بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچے کو اچھے تعلیمی ادارے سے تعلیم دلوانے کا خواہاں ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اہم ترین علاقہ ہونے کے باوجود یہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ علاقہ رنگلہ ایک ایسا مرکز ہے جس کے ساتھ گرد و نواح کے بہت سے علاقے مثلاً ہنس چوکی ، رینگولی ، ڈھک ، ڈھوک ، ہوڑوٹ ، چھپڑیاں ، نانگال باڑیاں ، صبوکوٹ ، جاگیر کٹکیر اور دیگر علاقے ملحق ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس علاقے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پسماندہ رکھا گیا ہے۔ جناب وزیر اعظم صاحب! ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد پہلے انٹر کالج اور اب گزشتہ حکومت سے تعلیمی پیکیج کے تحت ڈگری کالج حاصل کیا گیا جس کے نوٹیفکیشن کے بعد عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ اب غریب کا بچہ بھی محدود وسائل کے اندر رہ کہ بھی تعلیم حاصل کر سکے گا۔ کیونکہ رنگلہ سے دھیرکوٹ جاتے ہوئے ایک طالبعلم کو صرف کرایہ کی مد میں یومیہ 100 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جو ایک غریب شخص کی پہنچ سے دور ہے۔ جبکہ دھیرکوٹ کالج میں بھیج کر خراب موسم میں مائیں دن بھر اپنے بچوں کی خیریت سے واپسی کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔لیکن پھر وہی ہوا جو اس علاقے کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ تعلیمی پیکیج کی قانونی حثیت سامنے آنے کے بعد بھی جہاں مختلف علاقوں میں عمل درآمد یقینی بنایا گیا وہاں علاقہ رنگلہ کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا اور تعلیم سے بے پناہ محبت کرنے والے لوگوں کو مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ اس میں قانونی پیچیدگیاں کیا ہیں یہ الگ بات ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ یہ مسئلہ آپ کی انفرادی توجہ سے حل ہو سکتا ہے ۔ جناب عالی! ہمارے اس علاقہ کے لوگوں نے مشکل ترین حالات کے اندر اپنی بقاء کی جنگ لڑی ہے۔ ہماری سڑکیں بوسیدہ ، ہمارے ہسپتال صرف نام کے ہیں اور ہماری خواتین آج بھی دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی احتجاج نہیں کیا لیکن جناب وزیر اعظم صاحب! تعلیم کو فروغ دینا اور پڑھے لکھے لوگ پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی ضروریات کو بھی قربان کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر دور میں تعلیمی سہولیات حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے اور سب محرومیاں برداشت کر کے اس علاقے میں اچھے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت بحال رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر بھر میں نمایاں نتائج دئیے ہیں۔ جناب عالی! رنگلہ کے اندر ڈگری کالج کی کلاسز کا اجراء نہ ہونا ایک سوچے سمجھے منصوبے اور تعلیم کے دشمنوں کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جو اس علاقے کے لوگوں کے بچوں کو ان سہولیات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم بذریعہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں کہ ہماری نسلوں کو تعلیمی محرومیوں سے بچایا جائے۔ یہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا حق ہے اور جناب وزیر اعظم صاحب ہم آپ سے اپنا حق مانگتے ہیں اُمید ہے کہ اب آپ کی توجہ دلانے کے بعد آپ ہمیں محروم نہیں فکھیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟