جمعہ عید ہے تو میلاد النبیؐ عید کیوں نہیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے موقع پر پہلی بات تو یہ ہے کہ صحابہ کرام نے یوم پیدائش کو نہیں منایا اور نہ یوم وفات کو منایا کوئی بھی چیز جب دین سمجھ کر کی جاتی ہے تو اس کے لیے قرآن و سنت کے ثبوت کا ہونا ضروری ہے اگر ہمارے پاس یوم پیدائش کے حوالے سے کوئی بھی تعلیمات نہ ہوتیں تو بھی اتنا کافی تھا ہمارے لیے کہ ہم یوم ولادت کو سیلیبریٹ نہیں کرسکتے یا یوم وفات کو برسی نہیں منا سکتے ہیں لیکن ہمیں کچھ احادیث ملتی ہیں جن سے ہمیں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ اگر کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت معلوم ہو کسی کو تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم ولادت پر کیا کیا ہے ہمارے پاس مشہور حدیثیں بخاری و مسلم کی
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پیر کو روزہ رکھتے تھے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کیوں روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا میری پیدائش کا دن ہے تو اس سے ہمیں کیا پتا چلا کہ دیکھئے روزہ اور تہوار دونوں جمع نہیں ہو سکتے یعنی عید اور روزہ جمع نہیں ہو سکتے آپ جب کبھی کسی بھی چیز کو سلیبریٹ کرتے ہیں یعنی مناتے ہیں تو روزہ رکھ کر نہیں مناتے مثال کے طور پر آپ کو کوئی خوشی پہنچی ہو آپ کا بیٹا امتحان میں پاس ہو گیا ہو تو آپ یہ نہیں کہیں گے لہٰذا میرا بیٹا امتحان میں پاس ہوگیا تو میں کھاوں گا کچھ نہیں ٹھیک ہے ؟ کھانے سے پرہیز کرکے خوشی نہیں منائی جاتی کھلا پلا کے خوشی منائی جاتی ہے آپ صلی اللہ و علی و سلم نے پیر کو روزہ رکھ کے یہ ثابت کر دیا گویا امت کو یہ سبق دے دیا میرا جو یوم ولادت ہے اس کو باقاعدہ سیلیبریٹ نہیں کیا جا سکتا ہم دیکھتے ہیں عید الفطر میں روزہ رکھنا حرام ہے عیدالاضحیٰ میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جمعہ کو بھی چھوٹی عید قرار دیا گیا ہے جمعہ کو روزے کیلئے خاص کرنا ناپسند کیا گیا ہے کہ اسکی فضیلت سمجھ کے آپ جمعہ کو روزہ رکھیں کیونکہ عید کا تصور ھے اس میں ایک تو ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں دوسری اگر ہم قرآن و سنت پہ اور شریعت کے مزاج پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کو لیے جو دن تھا ہفتے کا دن تھا جو ان کی گویا چھوٹی تھی جو مقدس دن تھا ہفتے میں سب سے بڑا دن تھا وہ اور اللہ نے عیسائیوں کے لیے اتوار کا دن رکھا عیسائیوں یہودیوں کے بعد آئے تو ہفتے کے بعد ان کا اتوار ہم عیسائیوں کے بعد آئے تو ہمارے لئے پیر کا دن ہونا چاہیے تھا اور نبیؐ کا یومِ ولادت بھی تھا تو وہ اور اس کا تقاضہ تھا کہ ہمارے لیے بڑا دن پیر کو قرار دیا جائے لیکن آپ دیکھیں شریعت نے اس دن کو اہمیت نہیں دی جمعہ کے دن کو کردیا اور اس کو عید قرار دے دیا ہمارے لئے تو اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شریعت کے اس مزاج سے کہ شریعت جو ہے نبیؐ کے ولادت والے دن سے تہوار کا عُنصر نکال رہی ہے ۔ کسی بھی لحاظ سے اس کو تہوار نہیں بنانا چاہتی صحابہ کرام کا جو طرز عمل ہے اس میں بھی ہمیں یہی بات ملتی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے جب سال کی ابتدا کی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں صحابہ کرامؓ کا اجتماع ہوا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے یوم پیدائش کو بھی اہمیت نہیں دی اور یوم وفات کو بھی بلکہ ہجرت والے سال کو اہمیت دیں تو اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے کہ نبی علیہ السلام نے اپنا سب کچھ اللہ کے لیے قربان کردیا تو جب یہ سال تبدیل ہوگا تو ہمارے ذہن میں آئے گا تو جیسا کہ اب چودہ سو انتالیس ہجری چل رہا ہے جب سے چودہ سو انتالیس کا لفظ ہمارے سامنے آئے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی علیہ السلام نے اللہ کے لیے جو ہجرت کی اور قربانیاں دیں اب انہیں چودہ سو انتالیس سال بیت گئے دوسری بات اس میں یوم ولادت کو باقاعدہ سلیبریٹ کرنے میں اور باقاعدہ منانے میں ایک اور خرابی بھی ہے کہ اس میں کوئی بھی مسلک ہو تمام علماء کے مسلک کا اس پر اجماع ہے کہ سالگرہ منانا جائز نہیں آپ دیکھیں تمام علماء خواہ وہ کسی بھی مسلک کے ہوں یہی فتویٰ دیتے آیا ہے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم یہ سالگرہ نہیں منا رھے تو یہ دیکھا جائے گا کہ ہو کیا رہا ہے الفاظ نہیں دیکھے جائیں گے آپ کسی کو ایک چیز دیتے ہیں یا اپنا مکان بیچتے ہیں اور اسکا ایک کروڑ روپے آپ لیتے ہیں آپ کہتے ہیں مکان کسی کو گفٹ کر رہا ہوں ایک کروڑ کے بدلے میں تو نام تو گفت استعمال ہو رہا ہے مگر اس پر آپ ایک کروڑ روپیہ لے رہے ہیں تو اس کو ہم کیا نام دیں گے اس پر بیع و شراء کے خرید و فروخت کے احکام جاری ہوں گے لیبل بدلنے سے اس پر میں چھوٹا سا لطیفہ بھی سنا دیتا ہوں کہ ایک آدمی نے چینی کی بوری رکھی تھی بچنے کے لئے اور اس پر چاول کا لیبل لگایا ہوا تھا تو لوگوں نے اس سے کہا کہ ہے چینی اور آپ نے اوپر چاول کا لیبل لگایا ہوا ہے یہ کیاہے تو اس نے کہا یہ مکھیوں کو دھوکا دینے کے لیے ایسا کیا ہوا ہے تو مکھیاں جو ہیں وہ دھوکے میں نہیں آئیں گی تو لیبل بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا یوم ولادت کو سیلیبریٹ کرنا یہ ہے سالگرہ ، کیک اس کا لازمی عنصر نہیں ہے اس میں کیک بھی ہو سکتا ہے مٹھائی بھی ہوسکتی ہے بتیاں بھی ھو سکتی ھے اور یہ سب کچھ ہو بھی رہا ہے اس کو سیلیبریٹ کرنا ہی اصل چیز ہے کو جب آپ یوم ولادت منارہے ہیں تو یہ سیلیبریٹ کرنا ہی ہے ہوا یہ سالگرہ منانا ہی ہوا اب عجیب بات ہے انگریز ہم پر اعتراض کر سکتا ہے میں بچے کا یوم ولادت مناوں تو تم اسے ناجائز کہتے ہو کہ اسلام میں یہ منع ہے اور جو نبیؐ اسلام لے کر آئے تم اسی کا یوم ولادت منارہے ہو اسی کی سالگرہ منا رہے ہو تو کیا یہ ہے نا جائز نہیں ہے تو آپ اس کو کیا کہیں گے اس کو کیسے قائل کریں گے اسی طرح یوم وفات ہے یعنی برسی ، برسی کیوں مناتے ہیں یعنی غم کو تازہ کرنا یہ بھی اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے ۔ فقہاء نے لکھا ہے تین دن کے بعد تعزیت مکروہ عمل ہے ناپسندیدہ عمل ہے کیا آپ اس کو زیادہ کھینچ نہیں سکتے اور عورت کے لئے اگر شوہر مرجائے تو چار مہینے دس دن سے زیادہ وہ بھی غم نہیں کر سکتی ہے اب وہ یہ نہیں کرسکتی کہ کیونکہ یکم جنوری کو میرے شوہر کا انتقال ہوا تو ہر سال یکم جنوری کو وہ عدت میں بیٹھ جائے یہ ایسا نہیں ہے چار مہینے دس دن عورت کے لیے رکھے ہیں اس کے بعد نہیں اور عام حالات میں آپ غم کو کسی حد تک یعنی تعزیت وغیرہ کر کے شیئر کر سکتے ہیں وہ تین دن ہیں ۔ تو برسی کا بھی اسلام میں تصور نہیں ہے اور سالگرہ کا بھی نہیں ہے تو اس لئے سب علماء یہی کہتے ہیں کہ باقاعدہ یوم ولادت کو سیلیبریٹ کرنا یہ غلط ہے تو یہ ہم کس طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ کیا قیامت کے دن آپؐ ہم سے خوش ہوں گے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو فالو نہ کریں اور اپنے طریقے سے یہ محبت کے اظہار کی کوشش کریں ۔ آخری بات جب بھی کسی کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو محبوب کو اپنے طریقے سے راضی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ محبوب کا مزاج کیا ہے ۔ تو جس سے محبت ہے اس کو خوش کرنے کیلئے وہ کام کرنا پڑے گا جو محبوب چاہتا ہے جسے پشتو میں کہتے ہیں اخپل طریقہ ، اخپل طریقے سے نہیں ہوگا ۔ جو صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے راضی کیا ۔ انہوں نے ربیع الاول میں کیا کیا نعت پڑھنا بھی ٹھیک ہے اگر آپ ربیع الاول میں الگ سے نعت پڑھتے ہیں چونکہ ایک مناسبت ہے اس مہینے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو نعت پڑھنا کوئی پابندی نہیں ہے ، سیرت کے نام پر جلسہ کرنا وہ پورے سال میں کبھی بھی ہو سکتا ہے اور اس مہینے میں بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ جو بڑے بڑے جلوس نکالے جا رہے ہیں خوبصورت کپڑے پہنے جارہے ہیں ، ڈیک لگائے جا رہے ہیں اور مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں اور بتیاں لگائی جا رہی ہیں یہ چیزیں اسلام میں نہیں ہیں ۔ اسلام میں جتنے بھی تہوار ہیں وہ سارے دن کی روشنی میں ہوتے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی یہ دو تہوار ہیں دونوں ہی دن کی روشنی میں ہیں ۔ غیر مسلموں کے زیادہ تر تہوار عام طور پر رات کو ہوتے ہیں ۔ آپ کرسمس دیکھ لیں رات کو ان کا جو دھوم دھڑکا ہوتا ہے وہ دن میں نہیں ہوتا ۔ تو عید ملادالنبیؐ جو ہے جو آج کل منائی جارہی ہے یہ بھی رات کو زیادہ منائی جاتی ہے اور دن میں کم ۔ خود یہ چیز شریعت میں ناجائز ہے کیونکہ جو بتیاں وہ رات کو زیادہ جگمگاتی ہے اور دن میں نہیں ۔ یہ چیز بھی شریعت کے مزاج کے خلاف ہے کہ تہوار اگر یہ ہوتا تو دن میں ہوتا ۔ اور کسی بھی قوم میں کسی بھی مذہب میں ان کا جو تہوار ہوتا ہے اس پر سب کا اتفاق ہوتا ہے ۔ آپ دیکھیں جو لبرل ہندو ہیں وہ ہولی کے دن ہولی منائیں گے ، جو لبرل کرسچن ہیں وہ بھی کرسچن ڈے مناتے ہیں یعنی تہواروں میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا مسلمانوں میں جتنے بھی فرقے ہیں جتنے بھی مذہب ہی عید الفطر کو سب مناتے ہیں اسی طرح عیدالضحی کو بھی سب مناتے ہیں اور یہ جو تہوار ہیں یہ سب متفق علیہ ہوتے ہیں ۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوتا ۔ عید میلادالنبی جس طرح سے منائی جارہی ہے تو اب دیکھیں بعض اسلامی ملک ایسے بھی ہیں کہ ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ آج کوئی اسلامی تہوار ہے یا عید کا دن ہے ۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ آج کیا ہے ! پورے پورے ملک ایسے ہیں جن میں منائی ہی نہیں جا رہی ۔ پھر جس ملک میں منائی جا رہی ہے تو اس کے بھی کسی شہر میں منائی جا رہی ہے اور کسی میں نہیں منائی جا رہی ۔ کسی شہر کے ایک کونے میں منائی جا رہی ہے تو دوسرے کونے میں نہیں منائی جا رہی ۔ تو تہواروں میں ایسا اختلاف نہیں ہوتا ۔ ایسا اختلاف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ مسلمانوں کا باقاعدہ تہوار نہیں ہے ۔ اور اس کو عید کے لفظ سے تعبیر کرنا بھی شریعت کے مزاج کے بہرحال خلاف ہے ۔
Comments
Post a Comment