موبائل فون یا اعمال کی کتاب !!!


آج کل موبائل فون ہماری زندگی میں اس قدر داخل ہو چکا ہے کہ اکثر لوگ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بیشک اس کے تھوڑے بہت فوائد بھی ہیں لیکن نقصانات اُن فوائد سے زیادہ ہیں۔ دُنیا جہان کی بُری سے بُری چیزیں اس میں آ وارد ہوتی ہیں اور تلاش کرنے پر اچھی اچھی باتیں اور دُنیا جہان سے رابطے بھی مل جاتے ہیں۔ جو جو خواتین و حضرات عرصہ دراز سے اس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں اُنہیں خُود بھی معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے اس میں کتنی غیر شرعی سرگرمیاں کی ہیں ، کتنے لوگوں کے دل دُکھائے ہیں ، کتنی اچھی اچھی باتیں سیکھی ہیں یا سکھائی ہیں۔ بلکہ آجکل تو میں نے بہت سے لوگوں کو موبائل پر ایک دوسرے کا دوست بنتے ہوئے دیکھا ہے اور بہت ساروں کو لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ کوئی اپنے نظریہ مدمقابل سے منوانے کے چکر میں ہوتا ہے تو کوئی اپنے بھٹکے ہوئے سیاسی یا مذہبی لیڈروں کے تحفظ میں ایک دوسرے کو مارنے پر بھی تُلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے کی کسی اٙن پڑھ جاہل و گنوار سے کسی ٹاپک پر بات شروع ہوتی ہے تو آخر میں ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اپنی اہنی راہ چل رہے ہوتے ہیں جبکہ دونوں کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کون کہاں سے آیا تھا اور کہاں گیا ہے۔ تمام قارئین سے گزارش ہے کہ ایک دوسرے کی شخصیت اور رائے کا احترام کریں اور اگر اس کا رد بھی کرنا ہو تو دلائل سے کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ہر کسی سے جھگڑے کر کر کے چُڑچُڑاپن کا شکار ہو جائیں اور آپ کے نامہ اعمال سے نیکیوں کے بجائے گالیاں ہی گالیاں برآمد ہوں۔ دیکھنے میں موبائل ایک بہت چیز نظر آتی ہے مگر یہ بہت بڑا فتنہ بھی ہے۔ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو اس کی اسکرین پر ضائع ہونے سے بچائیں۔ اور اکر اس کا استعمال کرنا ہی ہو تو اس میں موجود تمام بُری باتوں اور فضول کے جھگڑوں سے اجتناب کیا جائے۔ اور اسے دینی و دُنیوی مفاد کے حُصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے قرآن و حدیث اور بزنس کے نت نئے طریقے بھی سکھائے جا رہے ہیں۔ الغرض فضولیات سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟