اولیاء اللہ سے تعلق و وابستگی


تحریر حافظ عثمان وحید فاروقی جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے وہ نور کے پُتلے یہی ہیں محسن امت ، یہی ہیں ظِل رحمانی اللہ کے ولی کے چہرے کا دیدار تو کیجیے ۔ کریمیں مل مل کے اور عطر کی مہنگی مہنگی شیشیاں جیب میں رکھ کر سٹیج پہ جانے والو ! یہ جب زندہ تھا تب بھی وجود سے خوشبو مہکتی تھی ، زبان سے الفاظ کی صورت میں مُشک و عنبر سے بھی قیمتی خوشبو آتی تھی ، ہیرے اور جواہرات ان کے علمی موتیوں کے سامنے ہیچ تھے۔ ہاں پر ! سونے کی قیمت سونار ہی جانتا ہے جسے پنجابی شاعر نے یوں بیان کیا ہے : قدر پُھلاں دا بلبل جانے صاف دماغ والی قدر پھلاں دا گرج کی جانے مردے کھاون والی ، آج بھی متّبع شریعت ، تصوف و طریقت کے بادشاہ ، ریاضت و سلوک میں ممتاز مقام رکھنے والے اہل اللہ کی کمی تو نہیں ہے لیکن میری قوم جاھل ، گنوار ، پینڈو پیروں کے جال سے نکلے تو سہی۔ ان نام نہاد درویشوں نے قوم کو ایسا شکنجے میں جکڑ رکھا ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ اور میں سنی بریلوی علماء سے کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ خدارا ! روٹی روزی سے ہٹ کے قوم کو حقیقی اولیاء اللہ سے انکی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔ پر کیا جب ہمارے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں تو اُلٹا ہمیں ہی مورد الزام ٹہراتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ (پیروں ) کے مخالف اور ان کے منکر ہیں حالانکہ اسے سفید چٹا جھوٹ کہنا بھی مناسب نہیں۔ ہمارے اسلاف بزرگ ہمیشہ کسی صاحب نسبت بزرگ سے تعلق کو لازمی قرار دیتے آ رہے ہیں اور بعثت محمدیؐ کے مقصد و یزکیھم پر خود بھی عمل پیرا رہے ہیں۔ امام اہلسنت فاتح رافضیت علامہ علی شیر حیدری شہید مکمل متّبع شریعت اور کامل ولی تھے۔ آپ کی علمیت کا چرچا شرق و غرب میں اپنوں اور بیگانوں کے ہاں یکسر مشہور تھے۔ آپ کے فیض یافتہ شاگرد اور روحانی نسبت رکھنے والے لوگ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں۔ آپ کے شاگردوں نے بتایا کہ آپ کے چہرے پہ رب تعالی نے عجیب کشش رکھی تھی۔ جو ایک بار دیکھتا تو وہ آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا۔ ایک پولیس آفیسر جو آپ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر پہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ اس نے حلفاً کہا کہ ایک رات کچھ سبز عمامے والے لوگ رات کے آخری پہر حضرت حیدری شہید کی قبر کی طرف آ رہے تھے پوچھنے پر کہنے لگے ہم اس شرط پہ آپ کو بتائیں گے کہ آپ کسی کو ہمارے متعلق نہیں بتائیں گے۔ تو وہ کہنے لگے کہ ہم حضرت کی قبر پہ اس لیے آئے ہیں سنا ہے ان کی قبر کی مٹی سے بھی خوشبو آرہی ہے ہم اس مٹی کی خوشبو سونگھنے آئے ہیں پولیس آفیسر نے کہا جب ہم وہاں پہنچے تو یقینناً حضرت حیدری کی قبر کی مٹی سے ایسی خوشبو آرہی تھی جو دنیا کی خوشبو سے مختلف تھی یعنی اس نے کہہ دیا کہ ایسی خوشبو تھی جو جنت کی خوشبو تھی دنیا کی نہیں۔ سبحان اللہ یہ ہوتے ہیں اہل اللہ ۔ ہمارے ہاں دنیا جہان کا گنوار بے نمازی ، خائن ،کتوں والوں کا چئیرمین ، جادو کا ماسٹر ، ان پڑھ اور چہرے پہ نحوست عیاں اور وہ وقت کے ولی اعظم اور سب کچھ کرنے والے ہوتے ہیں۔ خدا تعالی میری قوم کو سمجھ دے آمین اور ان مکاروں کے جال سے ہماری قوم کو محفوظ رکھے آمین میری درخواست ہے کہ علماء کرام علمی لحاظ سے عوام کو علماء سے تعلق رکھنے کا حکم کیا کریں اور تزکیہ نفس کیلیے صحیح متّبع شریعت سے بیعت ہونے کا مشورہ دیں۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟