پاکستان کا قانون اور غریب عوام


چند روز سے سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر وائرل ہونے والی یہ تصویر ایک بدنصیب ماں بیٹی کی ہے جن کا تعلق سندھ کے فرسودہ نظام سے منسلک کیا جا رہا کہ اس ماں بیٹی نے کوئی تقریباً تین کلو کے قریب کپاس چوری کی ہے. جی کیا سمجھے تین ٹن یا مٙن نہیں بلکہ صرف تین کلو کپاس چوری کرنے کے الزام میں دونوں کو ہتھکڑی لگا دی گئی کہ انہوں نے پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے چوری کی ہے. یہ ہتھکڑی دراصل بیس کروڑ عوام کو لگا کر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ خبردار ! کسی غریب نے کپاس یا روٹی چوری کر کے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اُسے ہتھکڑیاں لگا کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اور واقعی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ عام عوام تو جیل کے نام سے ہی ڈرتے ہیں اور میڈیا والوں کو قیدیوں کے انٹرویو لینے کی شاید اجازت ہی نہیں ہے کیونکہ جو خطرناک قیدی روٹی یا کپاس چوری کر سکتے ہیں ہو سکتا ہے وہ میڈیائی نمائندگان کے کاغذ و قلم بھی چُرانا شروع کر دیں جبکہ پیشی پر آئے قیدیوں کو دیکھ کر بھی عام آدمی یہی سوچتا ہے کہ ضرور اس نے کوئی بڑا ہاتھ مارا ہو گا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں دس سال سے زیادہ عرصہ جیل میں قید ریا ہوں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ جیلوں میں اسی فیصد لوگ بے گناہ ہیں اور بیس فیصد میں پندرہ فیصد کے کیس حادثاتی نوعیت کے ہیں جبکہ پانچ فیصد سے کم افراد کو عادی مجرم کہا جا سکتا ہے اُن میں بھی زیادہ تر پولیس و وڈیروں سے تنگ آ کر بنے۔ جبکہ ملک کے بڑے بڑے مجرم اوّل تو جیل جاتے ہی نہیں اور اگر جاتے بھی ہیں تو صرف ہٙوا کھانے کے لیے جاتے ہیں۔ پھر کسی بیماری وغیرہ کا بہانہ بنا کر باہر ملک چلے جاتے ہیں۔ کسی کا نام لینے کی ضرورت ہی نہیں آپ تمام بڑے بڑے چوروں اور لُٹیروں کو جانتے ہیں۔ پُوچھنا یہ تھا کہ کیا سزا اور یہ قانون کا لاگو ہونا صرف مفلس لوگوں تک محدود ہے ملک کے بڑے بڑے حکمران جو اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں جن کو عدالتیں کئی بار اشتہاری بھی قرار دے چکی ہیں ، بڑے بڑے چور ڈاکو فرد جرم عائد ہونے اور گرفتاری کا حکم صادر ہونے کے باوجود بھی ان کو کیوں کوئی گرفتار نہیں کرتا ؟ کیا سزا کا قانون صرف غریب کے لیے ہے جو اس ملک کو لوٹ کر کھا جاتے ہیں وہ تو ہمارے حکمران بن جاتے ہیں اور اگر کسی غریب پر جھوٹی ایف آئی آر بھی درج ہو جائے تو وہ غریب ساری زندگی کے لیے سرکاری نوکری حاصل کرنے کے حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اُسے اشارتاً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اب تُو سرکاری نوکری سے نہیں بلکہ وڈیروں و سرداروں کی زمینیں کاشت کر کے یا پھر چوریاں کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ ایسا کب تک چلتا رہے گا ! پتا نہیں غریبوں کے لیے کب ، کہاں سے اور کس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا حکمران آئے گا کہ جس نے دریائے فرات کے کنارے پیاسے کتے کے جانے کی ذمہ داری کا گناہ بھی اپنے لیے واجب الادا سمجھا تھا۔ نوٹ: مجھے معلوم ہے کہ ماں بیٹی کی تصویر دیکھ کر بھائی یا بیٹے کا دِل بہت دُکھے گا لیکن مٙیں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں ، مجھے معاف کر دینا۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟