مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات


بندہ ناچیز کی تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ مولانا فضل الرحمان کو ایک عالم دین تسلیم کروں یا مذہبی و سیاسی رہنماء ، کیونکہ اگر ہم مولانا صاحب کو ایک عالم دین تسلیم کریں وہ تو کسی حد تک نہیں بلکہ بالکل درست ہو گا کیونکہ آپ ایک مفتی صاحب کے فرزند ہونے کے علاوہ خود بھی مولانا مشہور ہیں اور یقیناً آپ نے دین کا علم بھی حاصل کیا ہو گا ۔ مگر سوچنا یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس علم کو کہاں استعمال کیا یا کس کو فائدہ پہنچایا یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو اگر بطور عالم دین دیکھا جائے تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُنہوں نے کوئی قابل ذکر حد تک دین کی خدمت کی ہو یا کوئی کتاب لکھی ہو۔ بلکہ انہوں نے اپنے دینی علم کو استعمال میں لا کر کافروں اور چوروں لٹیروں کو جوڑنے اور اپنے سچے اور کھرے مسلمانوں کو آپس میں توڑنے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ بالکل نہیں لکھ رہا ہوں آپ خود بھی فیس بک وغیرہ پر دیکھ چکے ہوں گے یا دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی مسلک یعنی دیوبند مسلک کے علماء و عوام آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں جبکہ وہ شیعہ دونوں کو لڑتا دیکھ کر جشن منا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو یہ کس طرح آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جس کا سہرہ مولانا صاحب کے سٙر جاتا ہے کہ جو قرآن کریم کی آیات کی واضح مخالفت کرتے ہوئے مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتا ہے حالانکہ قرآن کریم میں ایسا کرنے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ اس سب کے علاوہ ہر حکمران کی چمچہ گیری کر کے مولانا صاحب تمام علماء کے لیے رُسوائی کا سبب بن رہے ہیں گو اُنہوں نے کشمیر کمیٹی کا ممبر بن کر کشمیر کو آزاد بھی کروا لیا ہے مگر ان کی وجہ سے لوگ تمام علماء کی ایمانداری اور دیانت داری پر انگلیاں اُٹھا رہے ہیں۔ یہ تو ہو گئیں مولانا صاحب کی دینی خدمات کہ مولانا صاحب نے دین اور دینداروں کا نام خُوب روشن کیا ہے جبکہ دوسری طرف سیاست کے میدان میں بھی مولانا صاحب نے کوئی بڑا معرکہ سٙر نہیں کیا ہے حصول اقتدار اور کُرسی کے سوا آئین میں کوئی قابل ذکر مذہبی ترمیم بھی نہیں کروا سکا بلکہ سیڑھی کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ خُود اور اس کی پُوری جماعت ختم نبوتؐ بل میں ترمیمی کے گناہ میں ملوث پائی گئی ہے جس کا اعتراف ڈرتے ڈرتے وہ خود بھی کر چکے ہیں۔ میری تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ مولانا صاحب پاکستانی سیاست کو اپنا فیض دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں !!! کیونکہ جہاں بھی خود غرض پاکستانی سیاست دانوں کا ذکر آتا ہے وہیں مولانا صاحب کے ذکر کے بعد یہ موضوع ادھورہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کو یہودی ایجنٹ کہتا رہا ہے اُس نے نیٹو سروس بند کر دی جبکہ یہ نیٹو کو خیبر پختون خوا سے گزار کر اس سے کرایہ وصول کر رہا تھا۔ اور اگر مولانا صاحب سیاست کے بجائے کسی مسجد کو سنبھال لیتا تو اب تک شاید بہت سی اسلامی کتابوں کا مصنف ہوتا یا کم از کم ہم جیسے عامی عوامی اس کی بُرائیوں کو اُچھال کر گنہگار تو نہ ہو رہے ہوتے۔

Comments

  1. بکواس اورجھل پر مبنی تحریر

    ReplyDelete
  2. بکواسات کا مجموعہ

    ReplyDelete
  3. قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کی اسمبلی میں قابل قدر چند اسلامی خدمات

    1- جب مشرف دور میں آئین سے اسلامی دفعات ختم کرنے کی کوشش کی گئ تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے ان دفعات کے تحفظ کی جنگ لڑی

    2- "سربراہ مملکت مسلمان ہوگا"
    جب اس شق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئ تو مولانا فضل الرحمن صاحب میدان میں آئے اور اس کی حفاظت کی

    3- "اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا"
    جب اس شق کو آئین سے نکالنے کی کوشش کی گئ اس وقت بھی مرد مجاہد نے اس شق کی حفاظت کی تھی

    4- "وزیر اعظم مسلمان ہوگاـ"
    جب اس شق کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس شق کا دفاع بھی قائد جمعیت نے کیا

    5- جب قرار داد مقاصد کو ختم کرنے کی بات آئ تو مولانا فضل الرحمن میدان میں آئے اور ان کو تحفظ فراہم کی

    6-امتناع سود کےنام سے 2006 میں جمعیت علماء اسلام مولانا فضل علی حقانی صاحب نے قانون سازی کی تھی

    7- جب پارلمنٹ میں توہینِ ناموس رسالت کی سزا ختم کرنے کی بات آئ تو جمعیت علماء اسلام نے صف اول کا کردار ادا کیا

    8- جب فوج کے ذریعے مدارس کےنصاب تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور عصری تعلیم کو لازم کیا جانے لگا
    تومولانا فضل الرحمن صاحب نے فوج کی أنکھوں میںأنکھیں ڈال کر کہا
    کہ تم سکولوںمیں ہمارا نصاب شامل کرو ہم عصری تعلیم کو داخل کردیں گے جب وہ نہیں تو یہ کیوں

    9- جب جامعہ حقانیہ کو مجاہدین کے امداد کی أڑ میں ختم کرنے کے ناپاک عزائم سامنے أئے
    تو مولانا فضل الرحمن نے ان کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا
    کہ اگر ایسی جسارت کسی نے کی تو سب سے أگے مجھے پاؤگے

    10- جب مشرف نے میراتھن ریس کی کوشش کی کہ نیم برہنہ لڑکیاں اور لڑکے روڈوں پر سر عام ریس لگائیں گے
    اس کو بھی جمعیت علما اسلام نے جان پر کھیل کر روکا

    11- جب پارلمنٹ میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے کے لیے بل پیش کیا گیا
    تو اس کو باہر پھنک دینے والا مولانا فضل الرحمن تھے

    12- ایم ایم اے دور میں شہادۃ عالمیہ کو M-A
    اور شہادۃ عالیہ کوB-A کی ڈگری کے برابر قرار دیا گیا تھا

    13- ایم ایم اے ہی کے دور میں قاری کی سکیل کو 7 سے بڑھا کر14کر دیا گیا تھا

    14- ایم ایم اے دور میں عربی ٹیچر کی بنیادی سکیل کو 9 سے بڑھا کر15 کردیا گیا تھا

    15- مشرف دور میں جب تحفظ حقوق نسواں کے نام سے فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے والا بل پارلمنٹ میں پیش کیا گیا تو مولانا صاحب نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پاؤں تلے روندا تھا.

    ReplyDelete
  4. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟