ہم مجلس عمل کا حصہ کیوں نہیں بنتے ؟ مولانا محمد اعظم طارق شہید صاحب

2003 میں مولانا اعظم طارق شہید صاحب نے اپنی ایک یادگار تقریر میں فرمایا کہ ہم مجلس عمل کا حصہ کیوں نہیں بنتے ؟ انہوں نے کہا کہ ہماری مجبوری ہے ہم اس لئے مجلس عمل کا حصہ نہیں بنتے ۔ جو گئے ہیں انکی مجبوری نہیں ہوگی مگر ہماری مجبوری ہے ۔ فرماتے ہیں میں دارالعلوم کراچی میں حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب کے پاس گیا کہنے لگے بیٹا میرا تو آپ کو یہی مشورہ ہے کہ آپ بھی مجلس عمل میں چلے جائیں ۔ میں نے کہا حضرت ایک بات میری غور سے سن لیں مجلس عمل میں تو شیعہ بھی بیٹھا ہوا ہے اور آج کل وہ شیعہ کی صفائی بھی دے رہے ہیں اور کچھ نہیں تو اتنا ضرور کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں ۔ شیعہ سنی اختلاف کرنے والے امریکی ہیں۔ میں نے کہا حضرت ہم نے17سال جانیں دی ہیں ، 17سال ہم نے گولیاں کھائیں ہیں ۔ جیلیں کاٹی ہیں ، ہتھکڑیاں پہنی ہیں ، تختہ دار کو چوما ہے۔ لیکن ہم نے سترہ سال شیعت کے کفر کا اعلان کیا ہے۔ آج اگر میں بھی انہیں مسلمان مان کر ، مومن تسلیم کر کے ، اور دینی جماعت کہہ کر اُن کے ساتھ بیٹھتا ہوں اس کا مطلب یہ ہوا ہمارے شہیدوں کا خون رائیگاں گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا مولانا حقنواز غلط کہتے تھے ، اس کا مطلب یہ ہوا یا میں جھوٹا ہوں یا میرے شہید جھوٹے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ علمی طور پر ان کو ہم سے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ لیکن خدا کی قسم ! انہوں نے فرمایا یہ بات میرے سامنے نہیں تھی ، بیٹا ! ساری عمر تم وہاں نہیں جانا اس سے لیے کہ تم نے سترہ سال جو کام کیا ہے اس پر پانی پھر جائے گا۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے مؤقف پر تنہا ڈٹے رہو۔ تو ہم نے مؤقف اور نظریہ سوچ سوچ کر بنایا تھا۔ اُس پر جانیں دیں ، جیلیں کاٹیں ، ہتھکڑیاں پہنیں۔ جان جا سکتی ہے مگر ہم اپنے مؤقف سے دستبردار نہیں ہو سکتے اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ پاکستان کے ، ہندوستان کے ، بنگلہ دیش کے ، عرب امارات کے ، سعودی عرب کے ، برطانیہ کے علماء نے جو فتوٰی دیا ہے وہ فتوٰی سچ ہے۔ اُس فتوے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہمارا مؤقف ہے۔ ۔ ۔ ہم تو مفتی ہیں نہیں ، میں مفتی نہیں ہوں ، مولانا علی شیر حیدری مفتی نہیں ہیں ، مولانا ضیاء الرحمان مفتی نہیں تھے ، مولانا ایثار القاسمی مفتی نہیں تھے ، مولانا حق نواز مفتی نہیں تھے۔ ہم میں کوئی بھی مفتی نہیں ہے۔ ہم نے فتوٰی بھی نہیں دیا۔ فتوٰی ہمارے اکابر نے دیا۔ اور اتنی بڑی تعداد میں دیا کہ خُدا کی قسم ! قادیانیوں کے خلاف اتنی بڑی سطح پر فتوٰی نہیں آیا تھا جتنا بڑی سطح پر فتوٰی شیعہ کے خلاف پوری دنیا کے مسلمان مفتی حضرات نے دیا ہے۔ دعوے سے کہتا ہوں۔ اگر کسی کو شک ہے بنوری ٹاون نے کتاب شائع کی ہے تمام فتووں کو جمع کر لیا ہے ۔ دو جلدوں کو ایک جلد میں میں شائع کیا ہے۔ فتوے گِن لیجیۓ مفتیان کرام کی تعداد ہزاروں سے کم نہیں ہے۔ ہم نے فتوٰی نہیں دیا۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ہمارے اکابر نے ، ہمارے بزرگوں نے اور ہمارے مفتیوں نے جو فتوٰی دیا ہے وہ حق ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟