عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم


حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آیات قرآنیہ _____________________________________________ اہل السنۃ و الجماعۃ کے بہت سارے عقائد ہیں۔ جیسے توحید ، رسالت ، معاد وغیرہ۔ انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ "حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم" بھی ہے۔ یعنی انبیاء کرام علیھم السلام کو اُن کی قبور میں زندہ سمجھنا۔ کیفیت کیسی ہے یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس عقیدہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دنیا میں تشریف فرما ہونے کے بعد جب موت کا ذائقہ چکھتے ہیں تو اس کے بعد قبر مبارک میں نبی علیہ السلام کو زندگی عطاء کی جاتی ہے ۔یہ زندگی روح اور جسم عنصری کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اسی کی وجہ سے قبر مبارک پر پڑھے جانے والے صلوۃ و سلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس سنتے ہیں۔ یہ عقیدہ امت مسلمہ میں اجماعی رہا ہے۔ احناف ، شوافع ، مالکیہ اور حنابلہ جو اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ان میں سے کوئی بھی اس عقیدے کا منکر نہیں اور یہ عقیدہ ان کو قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ملا ہے۔ اس دور میں اہل حق علماء دیوبند کا بھی یہی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ انہیں توارث سے ملا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن مجید ، تفاسیر ، احادیث ، شروح احادیث ، کتب عقائد و کلام اور رسائل صوفیاء کرام میں ملتا ہے۔ تمام کا احصاء تو اس مختصر مضمون میں نہیں ہوسکتا اس لیے صرف قرآن مجید کی تفاسیر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ (البقرۃ:154) کی تفسیر میں علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فلیس الشہید باولٰی من النبی و ان نبی اللہ حی یرزق فی قبرہ کما ورد فی الحدیث (احکام القرآن تھانوی ج1ص92) یعنی شہید نبیؑ سے تو بہتر نہیں اور بالیقین اللہ کے نبی قبر میں زندہ ہیں اور ان کو رزق بھی دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب:53) کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قلت و جاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه و سلم حىّ فى قبره و لذلك لم يورث و لم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته و من صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان. (تفسیر مظہری ج7ص408) یعنی میں [مفسر علامہ رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گا اور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائے گا۔ اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو وجہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔ (تفسیر معارف القرآن ج7ص203) وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران :169) اس کی تفسیر میں سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی ارواح کا ان کے ابدان مقدسہ کے ساتھ قائم رہنا اور قبر پر جا کر سلام کرنے والے کے سلام کو سننا اور اس کا جواب دینا (ثابت) ہے۔ (تفسیر کشف الرحمن ج1ص114) یاد رہے کہ اس تفسیر پر مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ ، مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہانپوری رحمہ اللہ کی تقاریظ ثبت ہیں اور یہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں طبع ہوئی۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الاحزاب :45) اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام انبیاء کرام علیھم السلام خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے گزرنے کے بعد بھی اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ (معارف القرآن ج7ص177) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِّجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب:40) اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذا الکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم حی بجسدہ و روحہ (روح المعانی ج22ص36) یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول و احادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔ پھر آگے مزید لکھتے ہیں: والمرئی اما روحہ علیہ الصلاۃ و السلام التی ھی اکمل الارواح تجردا و تقدسابان تکون قد تطورت و ظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف (ایضاًج22ص37) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہو گی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔ لیکن اس کا تعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہو گا جو کہ زندہ ہے۔ مزید ارقام فرماتے ہیں: وقد الف البیہقی جزء فی حیاتھم فی قبورھم و اوردہ فیہ عدۃ اخبار ( ایضاًج22ص 38) یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیھم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔ مزید لکھتے ہیں : ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر و ان کانت یترتب علیھا بعض ما یترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ و الاذان و الاقامۃ و رد السلام المسموع۔ ( ایضاًج22ص 38) جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز ، اذان ، اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔ فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (الکہف :11) کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا: اما ابوبکر فمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم و نودی: السلام علیک یا رسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح و اذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب'' (مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433) یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھا کر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کر کے کہا گیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آواز دینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، (النساء :64) اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد ما دفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول و حثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک و وعیت عن اللہ فوعینا عنک و کان فیھا انزل اللہ علیک وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ و قد ظلمت نفسی و جئتک تستغفرلی ، فنودی من القبر انہ قد غفر لک (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کر دی گئی۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے۔ اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔ (معارف القرآن ج2ص459،460) اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا تو خواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (تفسیر ابن کثیر ج2ص315) وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا (الزخرف:45) کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء (مشکلات القرآن ص234) یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب:53) کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔ انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟