
ایک عجیب منطق جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ
جو مولانا فضل الرحمن صاحب سے سیاسی اتحاد کرے تو وہ مسلمان ہے , چاہے وہ دنیا کا غلیظ ترین کافر شیعہ ہی کیوں نہ ہو , اور جو مولانا فضل الرحمن کی سیاسی مخالفت کرے تو وہ منافق یہودی ایجنٹ وغیرہ وغیرہ ہے چاہے وہ عالم دین مولانا سمیع الحق ہی کیوں نہ ہو. فضل الرحمن تیری سیاسی بصیرت کو سلام. یہ بندہ اپنی ٹیم کے ہمراہ مذہب کو سیاست کے لیے خُوب استعمال کر رہا ہے. اس کی وجہ سے لوگ مذہبی حلقوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ مولانا صاحب بعض مذہبی حلقوں پر بھی چھائے ہوئے ہیں. مگر اب یہ نہیں چلے گا کیونکہ اب بعض مضبوط مذہبی سیاسی جماعتیں کھل کر اس کی مخالف ہو چکی ہیں جن میں جمیعت علماء اسلام سمیع الحق , سپاہ صحابہؓ پاکستان اور پنج پیری خاص طور پر قابل ذکر ہیں. ان کے علاوہ اہل حدیث اور بریلوی بھی اپنی نئی سیاسی جماعتیں بنا چکے ہیں جو کہ پہلے نہیں تھیں. گو وہ انتخاب جیت کر اسمبلی نہ جا سکیں گی مگر پھر مولانا فضل الرحمان کا مذہبی ووٹ ضرور کاٹیں گی. میرے خیال سے تو جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے بہت بُرے دن چل رہے ہیں. جس سے بچنے کے لیے مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل بنا دی ہے تاکہ مل کر سب کا مقابلہ کیا جا سکے. یہ تو تھیں چند مذہبی جماعتیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی اُبھر کر سامنے آ رہی ہے جس کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے. پی ٹی آئی تو مولانا فضل الرحمان کے لیے صرف درد سر ہی نہیں بلکہ سٙر کُچلنے والی پارٹی ثابت ہونے والی ہے اس لیے تو مولانا فضل الرحمان بغیر ثبوتوں کے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتا پھرتا ہے مگر پاکستانی عوام بالخصوص پختون عوام اب جان چُکے ہیں کہ یہ مولانا فضل الرحمان کا صرف ایک سیاسی حربہ ہے جس کا حقیقت سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. کیا کوئی یہودی ایجنٹ نیٹو سپلائی بند کروا سکتا ہے , مدارس دینیہ اور آئمہ مساجد کی مالی امداد کر سکتا ہے , اسکولوں میں قرآن کریم کو لازمی قرار دلوا سکتا ہے ؟؟؟ یہ ہیں وہ کارنامے جو 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی مذہبی حکومت بھی سر انجام نہ دے سکی۔ اب پی ٹی آئی کے ان اسلامی کارناموں کو دیکھ کر بھی جمعیت علماء اسلام ف کو اپنی سیاسی موت نظر آ رہی ہے اور اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ مولانا سمیع الحق نے بھی پی ٹی آئی سے اتحاد کر کے نہ صرف مولانا فضل الرحمان کے یہودی ایجنٹ والے الزام کو دھو دیا ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں جمیعت علماء اسلام ف کو ہمیشہ کے لیے اپنے گھر جانے کی بھی ٹھان لی ہے۔
Comments
Post a Comment