رونگ نمبر کی تباہ کاریاں


تمام بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس آرٹیکل کو خُود بھی پڑھیں اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی یہ پورا لنک شیئر کریں۔ ہو سکتا ہے آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش سے کئی غلط فہمیاں ختم ہو جائیں اور کئی گھر برباد ہونے سے بچ جائیں۔ رضیہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا اور اس کا شوہر ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ گھر کا گزر اوقات اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔ دونوں میاں بیوی پیار و محبت کی زندگی گزار رہے تھے پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی یا بدبختی آئی کہ ایک دن رضیہ کا شوہر اپنے کام پر تھا اور رضیہ اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف تھی کہ اتنے میں رضیہ کے موبائل کی گھنٹی بجی اور ادھر رضیہ کو اپنے شوہر کی یاد بھی ستا رہی تھی وہ دوڑی دوڑی آئی اور کال اوکے کر کے بولی " ھیلو وووو " مگر آگے سے کوئی اجنبی بھول رہا تھا " جی جی ، بولیے کیا حال ہے " رضیہ اچانک ایک نئی آواز سُن کر گھبرا گئی اور خاموش ہوتے ہوئے کال بھی کاٹ دی۔ ادھر رضیہ کی ساس بھی رضیہ کے موبائل کی گھنٹی سُن رہی تھی وہ رضیہ کے قریب آئی اور پوچھا کیا کہہ رہا تھا میرا بیٹا ؟ رضیہ نے آنکھیں چُراتے ہوئے کہا " کچھ نہیں " کال کرنے والے کو پتا چل گیا تھا کہ یہ کسی عورت کا ہی نمبر ہے چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر بعد دوبارہ کال کر دی مگر اب کی بار رضیہ نے رونگ نمبر کو دیکھ کر کال کاٹ تھی۔ بس اب کیا تھا کہ بار بار موبائل بج رہا تھا جس سے رضیہ کے ساتھ ساتھ اُس کی ساس کی بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ رضیہ نے تھوڑی دیر کے لیے موبائل بند کر کے رکھ دیا تو کال کرنے والا بار بار میسج کر رہا تھا " کیا ہوا جان ، بات کیوں نہیں کر رہی ہو ؟ آپ کی آواز بہت پیاری ہے ، میرے کان آپ کی آواز سُننے کے لیے بیتاب ہیں " رضیہ کام کرتے کرتے جیسے موبائل کو بُھول ہی گئی تھی۔ رضیہ کی ساس آئی اور اُس نے موبائل آن کر دیا۔ کیا دیکھتی ہے کہ سارے میسج ہی میسج ہیں۔ ساس نے میسج پڑھے مگر رضیہ سے کچھ نہیں کہا ۔جب بیٹا گھر آیا تو موبائل اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے اُسے خوب غیرت دلائی ۔ شوہر نے رضیہ کی ایک نہ سُنی غصے سے لال ہو کر رضیہ کی پٹائی شروع کر دی اور بالوں سے پکڑ کر قریب ہی رضیہ کو اس کے والدین کے گھر لے جا کر ساری کہانی سُنا ڈالی ۔ جسے سُن کر رضیہ کا بھائی بھی طیش میں آ گیا اور اس نے پستول کی دو گولیاں رضیہ کے سٙر میں اتار دیں ۔ رضیہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔ رضیہ کا چھوٹا بھائی جو گاؤں سے باہر کام پر گیا ہوا تھا جب اس کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ وہیں سے سیدھا گھر آیا اور اس نے بھائی پر فائرنگ کر کے اُسے بھی اور گولیوں کی فائرنگ کے آگے آنے والی اس کی بیوی کو بھی وہیں ہمیشہ کی نیند سُلا دی۔ پولیس آئی رضیہ کے چھوٹے بھائی کو پکڑ کر لے گئی۔ واقعہ کی تفتیش اور موبائل نمبر کا ڈیٹا نکالنے کے بعد معلوم ہوا کہ رضیہ نے رونگ نمبر پر صرف چند سکینڈ بات کی تھی مگر رونگ نمبر والا رضیہ کو تنگ کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا ۔چنانچہ رونگ نمبر والے کو بھی گرفتار کر لیا گیا جس نے اقرار کیا کہ وہ رضیہ کو جانتا تک نہیں تھا وہ بس عورتوں اور لڑکیوں سے بات کرنے اور اُن کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے اُلٹے سیدھے نمبر ڈائل کرتا رہتا تھا۔ عدالت نے رضیہ کے چھوٹے بھائی بری اور رونگ نمبر والے کو تھوڑی سی سزا دی۔ یوں ایک رونگ نمبر سے پھیلنے والی غلط فہمی سے کئی قیمتی جانیں گئیں ، کئی گھر برباد ہوئے مگر نہ تو رونگ نمبر والے اپنے اس فعل بد سے باز آ رہے ہیں اور نہ ہی بدگمان اپنی بدگمانیوں سے باز آ رہے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟