بچوں پر تشدد


ہم اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جگہ انہیں احساس کمتری میں خود مبتلا کرتے ہیں جس سے اُن کی ذہنی و جسمانی صحت پر بہت بُرے اثرات پڑتے ہیں۔ بارہا کا تجربہ ہے کہ جس بچے کے بارے میں گھر کے بڑے افراد یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ نکمہ ہے تو اُس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور واقعی نکمہ ہی رہنا پسند کرتا ، وہ کہیں بھی اپنی قابلیت ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور اِس کے برعکس گھر کے بڑے افراد جس بچے کے بارے میں اکثر و بیشتر بولتے رہتے ہوں کہ یہ بڑا عقل مند اور ہونہار ہے تو وہ واقعی بڑا ہونہار ثابت ہوتا ہے اور ہونہار بننے کی پوری پوری کوشش بھی کرتا ہے۔ تو اس لیے اپنے بچوں کے حوصلے بڑھائیں انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے رہا کریں۔ اس سے بچے کی پوشیدہ قابلیتیں کُھل کر سامنے آ جاتی ہیں اور وہ ہر میدان میں ایک کامیاب انسان بننے کی کوشش کر سکتا ہے۔ بلا ضرورت بچوں کو ڈانٹنا اور ان پر غصہ کرنا ایک تو آپ کے بچوں کو آپ سے متنفر کر دیتا ہے۔ اور آئندہ وہ بہت کچھ کر سکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو بلکہ پوری کوشش کریں کہ طعنے سے گریز کریں ، اگر بالفرض بچے سے اگر غلطی سرزد ہو حائے تو بجائے تھانیدار بننے کے بچے کو الگ کمرے میں لے جا کر سمجھائیں ، اس غلطی کے نقصانات اس سے شئیر کریں اور آئندہ بچنے کی ترغیب دیں۔ جب بچہ آپ سے ایک مرتبہ متنفر ہو گیا تو سمجھ جائیں اب بات ہاتھ سے نکل گئی۔ پھر بچہ بہت کچھ برائیاں کرے گا لیکن آپ کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دے گا۔ ایک انتہائی اہم بات یاد رکھیں کہ کبھی کبھی کسی کو جیتنے کے لیے خُود کو ہارنا پڑتا ہے۔ و ما علینا الا البلاغ

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟