عمران خان اور قائد اعظم میں مماثلت

آل انڈیا مسلم لیگ نے تحریک پاکستان چلائی تو 55 بریلوی علماء بشمول خلیفہ اور فرزند اعلیٰ حضرت نے اور اکثر دیوبندی علماء نے فتویٰ دیا کہ یہ بے دین اور زندیقوں کی جماعت ہے اور اسے ووٹ دینا حرام ہے یہاں تک کہ قائد اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال ، حفیظ جالندھری اور کئی مجاہدین تحریک پاکستان پر کفر و بے دینی کا فتویٰ لگایا گیا یہاں تک کہ بریلویوں نے کافر بیریسٹر بلکہ کافر اعظم لکھ دیا۔ چونکہ مسلم لیگ کے قائدین عام مسلمان تھے ، ملاء نہیں تھے اور بابا قائد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شروع شروع میں اسمائیلی شیعہ تھے ، پارسی عورت سے شادی کی اور کافی ماڈرن تھے یہاں تک کہ برطانیہ ڈِسکو میں ڈانس بھی کر لیتے تھے اور اپنے ساتھ پالتو کتے رکھتے۔ بعض کے نزدیک تو وہ انگلینڈ میں سور کا گوشت بھی کھاتے تھے بعد میں وہ دین کی طرف مائل ہوئے ورنہ پہلے دور میں تو نماز روزہ ادا کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔ جب پاکستان بن گیا تو یہ ملا کہنے لگے کہ بھلے مسٹر جناح ایک بے دین فاسق شخص ہے لیکن دین داروں پر بھی سبقت لے گئے۔ اور کچھ ایسے لوگ جن کا روٹی پانی ، کاروبار ، کارخانے ، فیکڑیاں جائیداد ، سیاست ، سرداری ، نوابی اور کچھ کے مزارات کی گدیاں پیری فقیری آستانے پاکستانی علاقہ میں آتی تھیں انہوں نے جھٹ سے قائد کی حمایت کر دی اور کچھ ایسے جن کا سب کچھ بھارت میں تھا انہوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی اور نہ ہجرت کی ، چند ایک کی مجبوری بھی تھی لیکن لازمی نہیں کہ سب نے ایسا ہی کیا یا ان سب کی نیت ایسی تھی۔ بہرحال سیاسی مذہبی کاروباری حوالے سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے۔ بہرحال یہاں میں کسی خاص فرقے یا مسلک کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ مجموعی طور پر تقریباً ہر فرقے و مسلک کے مولوی مخالف نظر آ رہے تھے اور یہ بات بھی کنفرم ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح خود بھی دیندار لوگوں سے قدرے دُور صرف اپنے لیے جی رہے تھے پھر تحریک پاکستان میں آ کر آہستہ آہستہ اپنی آزاد زندگی کو ترک کرتے کرتے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جینے لگے اور اپنی زندگی میں اسلام کو داخل کرنے لگے۔ اخیر عمر میں شیعہ مذہب بھی چھوڑ دیا تھا اور وصیت میں اپنی نماز جنازہ کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانی کا کہا تھا۔
آج بالکل اسی طرح نئے پاکستان کا لیڈر عمران خان اُبھر کر سامنے آیا ہے تو آج اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ عیاش ، زانی اور یہودی ایجنٹ کہا جا رہا ہے مگر سلام ہے مولانا سمیع الحق اور مفتی سعید جیسے علماء کرام کو جو مسلمان کو کافر بنانے یا کافر کہنے کے بجائے خود بھی عمران خان کے قریب تر ہوتے گئے اور عمران خان کو بھی اسلام سمجھا رہے ہیں۔ جس طرح قیام پاکستان کے وقت کچھ علماء کرام نے قائد اعظم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی حمایت کی تو پاکستان بن گیا اسی طرح آج بھی علماء کرام نے تھوڑا آگے بڑھ کر عمران خان کی حمایت کر کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اور بعض مولوی آج بھی اپنی دال روٹی کو بند ہوتا دیکھ کر عمران خان کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں بلکہ اسے یہودی ایجنٹ یا یہودی کہہ رہے ہیں خواہ اُن کے سامنے عمران خان ہزار بار بھی کلمہ پڑھ لے وہ اپنے اس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹنے والے ہاں اگر عمران خان سیاست چھوڑ کر کرپٹ لوگوں کے خلاف بولنا بند کر دے تو پھر پہلے کی طرح اسے مسلمان مان لیا جائے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟