متفقہ فتوٰی 16 جنوری 2018


"پیغام پاکستان"کے نام سے قومی بیانیہ و فتویٰ پاکستان اسلامی ریاست قرار ، کسی قسم کی مسلح بغاوت و خودکش حملے ناجائز و حرام جبکہ ریاست آزاد چاہے وہ کسی بھی مسلمان کو پکڑ کر کافروں کے حوالے کر دے یا کافروں کے ساتھ مل کر کسی مسلم حکومت کو گرا دے مگر ریاست کے خلاف جہاد حرام قرار دیا جائے گا۔ فورسز کی کاروائیاں جائز ، جہاد کا حق صرف ریاست کے پاس ہو گا۔ اور ریاست امریکہ سے پیسے لے کر جہاد جاری رکھے گی۔ انبیائے کرام ، صحابہ کرام ، امہات المومنین ، اہلبیت عظام کی توہین اور کسی فرقے کی تکفیر حرام قرار دی گئی ہے جس سے پہلے کے دیے گئے تمام فتاوٰی جات خود بخود کالعدم ہو جائیں گے۔ کل یعنی 16 جنوری 2018ء کو ایوان صدر میں جاری ہونے والا اعلامیہ و فتویٰ ، دستور پاکستان کے بعد پیغام پاکستان کے نام سے قومی بیانیہ و فتویٰ تیار. . . قومی اعلامیہ و فتوی کل ایوان صدر میں جاری ہو گا. . . قومی اعلامیہ 22 جبکہ فتویٰ 9 نکات پر مشتمل ہے. . . قومی اعلامیہ اور فتویٰ پر1821 علماء و مفتیان عظام کے دستخط ہیں. . . تمام نامور علماء کے دستخط لازمی ہیں جو دستخط نہیں کرے گا ہو سکتا ہے اسے باغی قرار دیا جائے گا۔ استفتاء میں اسلامی ریاست ، جہاد ، خودکش حملوں ، نفاذ شریعت کے لئے مسلح جدوجہد کے سوالات پوچھے گئے تھے. . . اس کی منظوری کے بعد ریاست کے سوا نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والا بھی ریاست کا باغی ہی سمجھا جائے گا۔ پاکستان اسلامی نظام کی عملی کمزوریوں کے باوجود اسلامی ریاست ہے ، فتوٰی ۔ شدت پسند و دہشتگرد ملکی دشمن ہیں ، فتوٰی ۔ نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جدوجہد حرام ہے ، فتوٰی ۔ ٰ خود کش حملے حرام کرنے اور کروانے والے باغی ہیں ، فتوٰی۔ ریاست ، حکومت ، فورسز اور کسی فرقے کو مرتد اور کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ، فتوٰی۔ جہاد کا اعلان کسی گروہ یا فرد کی بجائے صرف ریاست کا حق ہو گا ، فتوٰی۔ عوام الناس بغاوت کچلنے کے لئے فورسز سے تعاون کریں>فتویٰ لاوڈ سپیکر کا غلط استعمال روکا جائے>اعلامیہ ٹی وی چینلز پر مذہبی موضوعات پر مناظرے قابل دست اندازی پولیس جرم>اعلامیہ الیکٹرانک میڈیا کے حق آزادی اظہار کو قانون کے دائرے میں لایا جائے>اعلامیہ خواتین کا احترام سب پر لازم ہے ورنہ سخت کاروائی ہو گی>اعلامیہ تمام پاکستانی برابر ، اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں>علامیہ انبیاء ، صحابہ ، اہلبیت ، امہات المومنین کی توہین پر آٓرٹیکل 295 اور 298 نافذ>اعلامیہ فتوے و اعلامیہ پر مولانا سمیع الحق صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے علاوه تمام مسلک کے تقریباً تمام ہی نامور علماء و مفتیان کرام کے دستخط موجود ہیں۔ جو دستخط نہیں کرے گا نفع و نقصان کا ذمہ دار خود ہو گا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں مکمل اسلام نافذ کرنے کے بجائے اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس فتوے میں چوروں کو نہیں چھیڑا گیا ہے کہ اسلام جن کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے رہا ہے۔ اور بینکوں میں سُود وغیرہ کو بھی بالکل نہیں چھیڑا گیا ہے۔ اور زانی کی سزا سنگساری ہے اسے بھی نہیں چھیڑا گیا۔ موجودہ علماء کو پریشر سے اور آنے والے مسلمانوں کو بہت بُری طرح سے باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ یہ فتوٰی آنے والی نسلوں کو بھی نفاذ شریعت کے مطالبے سے روک سکے۔ 1973ء وغیرہ کے آئین بھی ایسے پیوند کاری کر کے اسے مکمل اسلامی آئین ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ اس پر بھی بہت سارے جید علماء کرام کے دستخط موجود ہیں جن کی وجہ سے آج اگر کوئی بھی مسلمان نفاذ شریعت کا مطالبہ کرتا ہے تو سند کے طور پر اسے 1973ء کے آئین پر جید علماء کے دستخط دکھا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ پھر صوفی محمد ، مولانا فقیر محمد اور لال مسجد کی انتظامیہ نے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا تو انہیں باغی قرار دے دیا گیا۔ جہاں تک میرا خیال ہے پھر کوئی نہ کوئی لال مسجد جیسا سانحہ ضرور رُونما ہو گا۔ اگر حکومت اور حکومتی علماء اسلام سے اتنے ہی مخلص ہیں تو مکمل اسلام کیوں نافذ کر دیتے۔ اسلام کو ٹکڑوں میں کیوں بانٹ رہے ہیں ؟ اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کیوں مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ؟؟؟ ذرا دیکھو تو سہی نفاذ شریعت کی خاطر کتنے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں سویلین بھی ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ہمارے جوان بھی ہیں جو بیچارے اپنے سینئرز کا حکم ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بیچارے اپنا گھر چھوڑ کر ملازمتوں پر جاتے ہیں اور اُن کی لاشیں واپس گھر آتی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور سے پہلے کوئی اکّا دُکّا قبرستان ہی ہو گا جہاں پاکستانی پرچم لہرا رہا ہو گا مگر پرویز مشرف اور امریکہ کی انسان دشمن و مسلمان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اب وطن عزیز کا کوئی بھی ایسا قبرستان نہیں ہے جہاں قومی پرچم نہ لہرا رہا ہو۔ کیا جانیں دینے والے اپنی جانوں سے تنگ ہوتے ہیں ؟؟؟ ہرگز نہیں ، بلکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ بیچارے مجبور ہوتے ہیں۔ میرے بہت سے جاننے والے سیکورٹی فورسز میں موجود ہیں اور ہم ہمیشہ اُن کے فکرمند رہتے ہیں۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ دے کہ وہ اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے نافذ کرنے کے بجائے وطن عزیز پاکستان میں مکمل اسلام نافذ کریں تاکہ اسلام کے نام لیوا بھی سُکھ کا سانس لے سکیں اور ہماری سیکورٹی فورسز بھی کم از کم اندرونی خلفشار سے بےغم ہو جائے۔ نفاذ شریعت کا مطالبہ اسمبلی سے باہر بھی بارہا کیا گیا ہے اور حال ہی میں اسمبلی کے اندر پی ٹی آئی رہنما ایڈوکیٹ علی محمد نے بھی کیا ہے۔ اگر آئین پاکستان مکمل اسلامی ہوتا تو ایسا مطالبہ کوئی نہ کرتا اور جو کرتا تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ۔ اسلام زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟