امام اہل سنت کانفرنس کا پیغام کیا ہے ؟


امام اہلسنت کانفرنس کا پیغام۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تحریر۔ محمد سکندرشاہ ،، ٹنڈوالہیار رات جتنی اندھیری ہو سحر اتنی اچھی ہوتی ہے ، اس کا عملی مظاہرہ کل خیرپور سندھ میں دیکھنے کو ملا ، 11 ربیع الاول کو خیرپور ضلع میں بریلوی مکاتب فکر کے جلوس پر فائرنگ ہوئی جس میں 3 نوجوان شہیدؒ اور تقریبا 10 کے قریب زخمی ہوگئے ، اہلسنت والجماعت پاکستان نے اس حادثے کی شدید لفظوں میں مذمت کی ، آج بھی اہلسنت والجماعت پاکستان کی تمام ہمدردیاں شہدا کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ، لیکن بدقسمتی سے لواحقین نے fir میں اہلسنت علما و کارکنان کو ہی نامزد کردیا ، 15 ، 20 نامعلوم پولیس نے لکھ دئیے اور یوں پولیس کے پاس اندھا گرفتاریوں اور چھاپوں کا جواز آگیا پیاری پولیس نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور بے گناہ اہلسنت کارکنان کے گھروں سے قیمتی سامان کے ساتھ ، ساتھ جانور تک کھول کر اپنے ساتھ لے گئی ، ایسے کڑے وقت میں خیرپور میں ہی امام اہلسنت کانفرنس کا انعقاد ایک چیلنج تھا ، چھاپے اور گرفتاریاں ، کیس کی پیروی ، انتظامی معاملات ، گرفتار کارکنان کے گھروں کی خبر گیری ، فنڈز کی تنگی اور ساتھ میں امام اہلسنت کانفرنس کی تیاری ، مشکل وقت میں اکثر اپنوں کو بیگانوں کی اور دوستوں کو دشمنوں کی زبان بولتے دیکھا ہے ، مشکل وقت میں بڑے بڑوں کے پیر ڈگمگا جاتے ہیں وہ بھی کئی قسم کے طعنے دے کر سائیڈ ہو جاتے ہیں ، لیکن میں خاص طور پر تذکرہ کرنا چاہوں گا علامہ عبدالجبار حیدری صاحب اور مولانا ثنا اللہ حیدری صاحب کا جنہوں نے اس مشکل وقت میں خیرپور کو سنبھالا ہے ، صرف کانفرنس نہیں الحمدللہ کہیں کوئی جھول نظر نہیں آیا کانفرنس کے انتظامات بھی مثالی تھے اور ترتیب بھی ، اس لئے میری ہمیشہ سے ساتھیوں سے درخواست رہی ہے کہ ایسے سریلے خطیبوں یا لچھے دار گفتگو کرنے والوں کو کبھی اپنا آئیڈئل مت بناو جو فقط اچھی گفتگو کرتے ہوں اور عملی میدان میں ان کی کارکردگی زیرو ہو ، ہمیں میدان میں کارکردگی دکھانے والے جری جوانوں کی قدر کرنی چاہیئے ، ورنہ لچھے دار گفتگو تو عامر لیاقت بھی بہت اچھی کر لیتا ہے ، کانفرنس کی کامیابی میں قائد سندھ مولانا عبداللہ سندھی صاحب اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا انہوں نے یقننا اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کیا ہے ، 5جنوری 2018 کو امام اہلسنت کانفرنس ہمیشہ کی طرح نمازفجر کے بعد شروع ہوئی ، پہلی نشست کا اختتام مرکزی رہنما مولانا عبدالخالق رحمانی صاحب کے بیان سے ہوا ، نماز جمعہ کا خطبہ اور امامت کے فرائض مولانا ثنا اللہ حیدری صاحب نے انجام دئیے ، قائد سندھ مولانا عبداللہ سندھی صاحب نے اسٹیج کی ذمہ داریاں سنبھالی ، دیگر جماعتوں کے جلسوں میں 5 ہزار سے 8 کرسیاں لگائی جاتی ہیں ، اس جلسے کو پورا میڈیا کوریج دیتا ہے ، لاکھوں روپے تشہیری مہم پر خرچ ہوتے ہیں ، لوگوں کے لئے مفت سواری کا انتظام کیا جاتا ہے ، لیکن اہلسنت والجماعت کے جلسوں کا ہمیشہ سے یہ امتیاز رہا ہے کہ ان جلسوں میں لوگ اپنا کرایہ خود خرچ کر کے آتے ہیں ، تشہیر کے لئے فقط چند ہزار روپے مختص کئے جاتے ہیں ، اس کے باوجود اگر امام اہلسنت کانفرنس میں 5 ہزار یا 8 ہزار کرسیاں لگائی جاتیں تو یقننا پنڈال بھی چھوٹا پڑجاتا اوران کرسیوں پر صرف وہی لوگ بیٹھ پاتے جو لوگ چاروں اطراف کھڑے ہوئے تھے باقی سارا مجمع بغیر کرسیوں کے جلسہ سنتا ، لاشک امام اہلسنت کانفرنس میں ان گنت ہزاروں لوگ تھے ، کراچی والوں نے بھی اس بار بہت ہی بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت کی ، کراچی کے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے گزشتہ ایک ماہ میں کراچی میں 46 کانفرنس منعقد ہوئیں ہیں ، جس میں مرکزی و صوبائی قائدین نے شرکت کی ، ثابت ہوگیا ہے کہ کام کرنے والے الحمدللہ کام کر رہے ہیں باتیں کرنے والے گھروں میں بیٹھ کر مشکل حالات پر تبصروں میں مصروف ہیں ، مولانا عبدالخالق رحمانی صاحب سے میری جامعہ حیدریہ خیرپور کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرے کالموں کی تعریف کی اور فرمایا کہ آپ جماعت کی بہترین ترجمانی کر رہے ہو اور لکھنے کا حق ادا کر رہے ہو ، اپنے اتنے سینئر رہنما کی زبان سے یہ الفاظ مجھ ناچیز کے لئے بہت بڑا اعزاز ہیں ، کانفرنس کے شرکا نے مولانا مسرور نواز جھنگوی صاحب اور علامہ عبدالصمد حیدری صاحب کی تقریر کو سب سے زیادہ توجہ سے سنا ، قائد اہلسنت علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب اسٹیج پر تشریف لائے تو ان کے صاحبزادے مولانا لطف اللہ لدھیانوی صاحب بیان فرما رہے تھے ، بلوچستان کا مقدمہ مولانا کلیم اللہ صاحب نے پیش کیا ، مولانا عبدالکبیر شاکر ، مولانا ثناللہ فاروقی ، اشرف میمن ، شفیق معاویہ ، منیر حقانی ، چودھری عامر و دیگر لاپتہ افراد کے حوالے سے کانفرنس میں خصوصی طور پر آواز بلند کی گئی ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الحمدللہ آج صبح قاری عبدالولی فاروقی کوئٹہ سے اپنے احباب کے ہمراہ بازیاب ہو گئے ہیں ، مولانا عبدالجبار حیدری صاحب نے خطاب کرنے کے بجائے فقط انتظامیہ اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا ، مولانا ثنااللہ حیدری صاحب نے 18 قراردادیں پیش کیں ، کانفرنس میں علامہ اورنگزیب فاروقی صاحب تشریف نہ لاسکے ان کی کمی کو کارکنان محسوس کرتے رہے ، قائد اہلسنت علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب نے دوران خظاب اپنے ہاتھ بلند کر کے اپنے تمام عہدیداروں اور کارکنان کی ذمہ داری لی کہ میرے کسی ساتھی کا دہشت گردی یا ملک دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یقننا قائد اہلسنت نے ہم سب پر یہ بہت بڑا اعتماد کیا ہے جس پر ہمیں ہر صورت پورا اترنا ہے ، قائد اہلسنت نے شرکا سے ہاتھ اٹھوا کر پاکستان سے محبت کا عہد لیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ضرورت پڑنے پر پاکستان کے تحفظ کے لئے جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ، قائد اہلسنت نے یہ اعلان بھی کیا کہ مشکل وقت میں جمعیت اور جماعت اسلامی سمیت کبھی کسی جماعت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا ہے اس لئے اب ہم 2018 کے الیکشن میں خود اپنے امیدوار اتاریں گے ، قائد اہلسنت نے کارکنان کو ملک بھر میں 2018 کے انتخابات کی تیاریوں کا حکم بھی دیا اور شرکا سے ہاتھ اٹھوا کر عہد لیا کہ اپنا ووٹ سب ساتھی جماعتی پالیسی کے مطابق دیں گے ، امام اہلسنت کی قبر کے سامنے کھڑے ہو کر عہد کرنے والے یقننا اپنا عہد نبھائیں گے اور اپنا ووٹ جماعتی پالیسی کے مطابق جماعتی امیدواروں یا جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ہی کاسٹ کریں گے ، مخیر اور اہل خیر حضرات بھی الیکشن 2018 کے لئے جماعتی امیدواروں کو فنڈز دینے کا اعلان کریں ، باقی میرا تو شروع سے یہ ماننا ہے کہ مجلس عمل نہ دینی معیار پر پورا اترتی ہے اور نہ سیاسی معیار پر ، کیونکہ 2002 میں مجلس عمل میں 6 جماعتیں شامل تھیں ، کالعدم تحریک جعفریہ کے علاوہ باقی پانچوں جماعتوں کے نمائیندے عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے ، علما کرام کے فتوے اپنی جگہ لیکن پاکستان کے عوام نے بھی اتحاد کے باوجود کالعدم تحریک جعفریہ کو یکسر مسترد کردیا تھا ، اس کا کوئی نمائیندہ عوامی ووٹ سے جیت کر 2002 میں اسمبلی میں نہیں پہنچ سکا ، عوامی فیصلے کی دینی جماعتوں کو پاسداری کرنی چاہیئے تھی ، لیکن انہوں نے عوامی فیصلے کی بھی لاج نہیں رکھی ، اس لئے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں امام اہلسنت کانفرنس کا یہ پیغام سمجھ لینا چاہیئے کہ اب ہم نے فقط مشکل حالات کا دکھڑا نہیں رونا ، بلکہ کراچی ، جھنگ اور خیرپور والوں کی طرح حالات کا مقابلہ کرنا ہے جیسے ہم نے نظریاتی میدان میں ساجد نقوی کو شکست دی ہے ویسے ہی ان شااللہ 2018 کے الیکشن میں ساجد نقوی کو سیاسی میدان میں بھی شکست دینی ہے ، شکست دینی ہے ، شکست دینی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟