آزاد کشمیر میں عقیدہ ختم نبوت کا مسودہ


آزاد کشمیر ۔ تحریر حافظ عثمان وحید فاروقی ______________________________________________ ممبر قانون ساز اسمبلی پیر علی رضا شاہ بخاری کی جانب سے عقیدہ ختم نبوت کیلیے کی جانے والی جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آج کشمیر لنک کے مطابق پیر علی رضا شاہ بخاری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ختم نبوت قانون سازی کیلیے مسودہ تیار کیا جا چکا ہے ۔ یقیناً یہ اہل اسلام کیلیے انتہائی مسرور کن اقدام ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم امہ کو نہ تو سوشل ازم متفق کر سکا ۔ اور نہ ہی پاکستانی قوم نے کبھی مارشل لاء کو تسلیم کیا۔ نہ ہی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت آج تک ایسی وجود میں آ سکی جس پہ تمام اہل اسلام بلا تفریق رنگ و نسل ، قوم و قبیلہ ، علاقہ و صوبہ ، مسلک و مشرب کے متفق ہوئے ہوں۔ عقیدہ ختم نبوت ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس پہ بلا تفریق تمام مسلمان یک آوز و یکجان ہو کر میدان میں اتر آئے تھے۔ پاکستان کی شاہراؤں کو خون سے رنگین کروا دیا تھا۔ اپنے بچوں کی قربانیاں پیش کی تھیں بحمدللہ آج بھی پوری قوم متحد و متفق ہے۔ پیر علی رضاء شاہ بخاری کے مطابق گزشتہ سال (26)اپریل کے روز پیش کی گئی قراد داد کو منظور کر لیا گیا تھا اور اس قرار داد کے متعلق پیر علی رضاء بخاری کا کہنا تھا ۔ کہ یہ قرار داد جامع ہے ۔ اس بات سے اختلاف ہے جسے مسلکی رنگ ہرگز ہرگز نہ دیا جائے ۔ پیر علی رضاء شاہ بخاری ہمارے بزرگ ہیں ہم دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے میں حضرت کے جوتے اٹھانا سعادت سمجھتا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ وہ قرار داد جامع نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پآکستان مین آرٹیکل (3) کی کلاز (a) اور (b) کو خطہ آزاد جموں و کشمیر میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان میں کئی قوانین رائج ہیں۔ جنہین من و عن خطہ آزاد جموں و کشمیر میں تعزیرات اور ضابطہ فوجداری آزاد جموں و کشمیر کے تحت ترامیم کی حد تک تو شامل کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کیلیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس قرار داد میں یہ لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں جو شقیں جس طور پہ ہیں وہ من و عن آزاد کشمیر میں بھی نافذ ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اول تو وہاں قانون سازی اس پر سرے سے ہوئی ہی نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ کلاز (a) اور (b ) مین مسلم غیر مسلم کی تعریف پاکستانی آئین میں کی گئی ہے ۔ جبکہ خطہ آزاد کشمیر میں مسلم غیر مسلم کی تعریف ہی نہیں کی گئی ۔ صرف مسلمان کی کی گئی ہے سوم یہ کہ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ شناختی کارڈ پہ بھی مسلم غیر مسلم کے نشان کا اندراج کیا جائے ۔ جبکہ شناختی کارڈ کے اجراء کا اختیار ریاست آزاد جموں و کشمیر کے پاس ہے ہی نہیں یہ تو پاکستان کی وزارت داخلہ جاری کرتی ہے ۔ اس میں مطالبہ ڈومیسائل اور پشتبنی سرٹیفکیٹ کا ہونا چاہیے تھا۔ تاریخ بھی درست نہیں لکھی گئی ۔ 1973 میں پاکستانی آئین کے مطابق لکھا گیا ہے ۔ جبکہ اس حوالے سے 1974 میں قانون بنا تھا ۔ 1973 میں درست نہیں۔ ایک اور اہم نقطہ ۔ کہ پاکستانی ووٹر لسٹ میں مذہب کیلیے آٹھ خانے ہوتے ہیں جن مین اول مسلمان باقی ہندو ، سکھ ، یہودی ، عیسائی ، قادیانی وغیرہ ۔ اب اگر کوئی آدمی مسلم کے خانے پہ ٹک لگاتا ہے ۔ وہ اس وقت تک مسلمان تصور نہیں ہو گا ۔ جب تک پانچویں نمبر پہ اس حلف نامے پہ بھی ٹک نہ کرے ۔ جس میں یہ وضاحت ہے کہ میں حلفیہ یہ اقرار کرتا/کرتی ہوں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھتا/رکھتی ہوں۔ اور قادیانی ، لاہوری وغیرہ کو کافر مانتا ہوں۔ جبکہ یہ وضاحت بھی آزاد کشمیر آئین میں موجود نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری پیچدگیان ہین۔ اس لیے تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر کی جانب سے آزاد حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ بجائے نئی الگ سرے سے قانون سازی کے پاکستان میں موجودہ ختم نبوت کی تمام شقون کو من و عن نافذ کر دے ۔ باقی پیر صاحب کا قرارداد میں یہ دعوی کہ من و عن نافذ ہے ۔ یہ دعوی درست نہیں ہے شاید اب تک حضرت دامت فیوضھم کے پاس تمام کتب وغیرہ یا آئین کی کتاب موجود نہ ہو ۔ اس لیے میری مؤدبانہ حضرت پیر علی رضاء شاہ بخاری سے گزارش ہے کہ وہ اس پہ نظر ثانی کریں۔ اور علماء کرام یکجا ہو کر آزاد کشمیر کی قریہ قریہ بستی بستی سے ختم نبوت کی آواز بلند کریں۔ یہ مختصر سی گزارش ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو عقیدہ ختم نبوتؐ کے لیے قبول و مقبول فرمائے۔ آمین خادم ختم نبوت ۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟