جہیز


جہیز _____________________________________________ پاکستان بننے سے پہلے مسلمان اور ہندو سب ایک ہی ملک میں رہتے تھے جہاں شادی بیاہ موت فوتگی کی رسمیں تقریباً سبھی مشترک تھیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہندوؤں میں ایک رسم چلی آرھی ہے وہ ہے "دام دہیج" اس رسم کا سر پیر یہ ہے کہ ہندو مذہب میں بیٹی کا جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے لہذا جب اس کی شادی ہوتی ہے تو ماں باپ اسے اپنی طرف سے کچھ دے دلا کر رخصت کر دیتے ہیں اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے جس کے بعد نہ تو لڑکی جائیداد کا کچھ مطالبہ کر سکتی ہے اور نہ ہی والدین کچھ دینے کے پابند ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اب ہُوا یوں کہ تحریک پاکستان چلی ، پاکستان بھی بن گیا اور یہاں سے ہندو ہندوستان چلے گئے ، مسلمان پاکستان آگئے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوانہ رسمیں بھی لیتے آئے یا جاتے ہوئے ہندو اپنی رسمیں یہاں بُھولے سے چھوڑ کر چلے گئے جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے متاع قیمتی جان کر مضبوطی سے پکڑ لیا جو کہ بہت ہی عجیب و غریب تھیں جن میں سے ایک رسم دہیج کی بھی تھی جو یہاں جہیز کا نام اختیار کر گئی اور مسلم معاشرے میں رائج ہو گئی اور اس زور و شور سے پابندی کی جانے لگی کہ اس رسم کے بغیر کسی لڑکی کی شادی کا تصور بھی نہیں کیا جاتا پھر اس میں بھیانک موڑ تب آیا جب امیر لوگوں نے زیادہ سے زیادہ جہیز دینا شروع کر دیا اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ جہیز دکھلائی کی رسم نے غریب کو کہیں کا نہیں چھوڑا کیونکہ بدقسمتی سے ایک ٹرینڈ یہ بھی چل پڑا کہ جی برادری کو کیا منہ دکھائیں گے اس وجہ سے زیادہ سے زیادہ جہیز دینے میں فخر محسوس کیا جانے لگا۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں سے وہ برائی شروع ہوئی جس نے غریبوں کی زندگی مین زہر گھول دیا اور غریب کی بچی کو گھر کی دہلیز میں ہی بڑھاپے کی دہلیز پہ پہنچا دیا کیونکہ جہاں بھی رشتے کی بات چلی لڑکے والوں کا پہلا سوال نہیں تو آخری سوال یہ ضرور ہوتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا دو گے ؟ اور اسی بنیاد پہ رشتے طے کیے جاتے ہیں۔ پھر جب شادی ہو جاتی ہے تو سب رشتے دار یہ دیکھنے ضرور آتے ہیں کہ لڑکی کیا کیا لائی ہے۔۔۔۔۔اگرچہ لڑکی کتنی ہی خوبصورت اور خوب سیرت کیوں نہ ہو مگر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ لڑکی کو جہیز کے سامان میں تولا جاتا ہے جو کہ ایک شرمناک فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور شرعاً و خلاقاً اس کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہے کیونکہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ رشتےداری کے لیے مال نہیں بلکہ اعمال کو دیکھا جائے۔ اب اگر ایک لڑکی دنیا جہان کا سامان لائی ہے مگر ہے بداخلاق و بداطوار ، زبان دراز اور پوہڑ ہے جسے صرف انڈہ فرائی کرنا بھی نہیں آتا تو اس کے سامان کو کیا اچار ڈالیں گے ؟؟؟ لیکن اس کے مقابلے میں اگر ایک غریب بچی جو جہیز میں کچھ نہیں لائی یا تھوڑا بہت لائی ہے مگر ہے بااخلاق و باکردار ، سگھڑ اور سلیقہ شعار ، خدمت گزار تو یہ چیزیں دنیا جہان کے سامان سے زیادہ قیمتی ہستی ہیں۔۔۔۔کاش کہ سمجھ آجائے یہ حقیقت۔۔۔۔۔۔۔ اسی جہیز کی وجہ سے کتنے گھرآباد ہونے سے پہلے اجڑ گئے جبکہ اس مروجہ جہیز کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے بلکہ خالص ہندوانہ رسم ہے کہ ہندو مذہب میں بیٹی کا باپ کی وراثت میں کچھ حق نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس اسلام ایک کامل مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے بیٹی کو بھی جائیداد میں حصے دار بناتا ہے۔۔۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں اب بھی ایسا ہوتا ہے کہ جہیز کے نام پہ بہت کچھ دیتے ہیں مگر جب بیٹی یا بہن وراثت اور جائیداد میں اپنا حق مانگتی ہے تو یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے کہ سب کچھ تو دے دیا تھا آپ کو شادی پر ، اب اور کیا حق رہ گیا ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔؟ ہم بھی عجیب قوم ہیں شریعت نے جس کا حکم دیا ہے وہ کام ہم کرتے نہیں اور اپنے ذہن سے سوچ کر ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔ایسے بدنصیب بھی ہیں جو اپنی بہنوں کی شادیاں صرف اس لیئے نہیں کرتے کہ کہیں خاندانی جائیداد کسی اور کے پاس نہ چلی جائے یا نعوذبااللہ قرآن کے ساتھ بھی شادی کر دی جاتی ہے اور ساری زندگی گھر میں گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔بہن بیٹی کا حق مارنے والے ، سود پہ مال کھانے والے ، چوروں ڈکیتوں کی سرپرستی کرنے والے بھی شادی کے لیے یہ ڈیمانڈ رکھتے ہیں کہ جہیز میں کیا دو گے ؟؟؟ تف ہے ایسی مردانگی پر۔۔۔۔۔۔۔ بےشک بیٹی بہن کو گھر سے رخصت کرتے وقت دو جوڑے کپڑوں میں رخصت کرو مگر اُس کو اُس کا وراثتی حق ضرور دو کہ کل قیامت کے دن جہیز کے بارے میں سوال نہیں ہو گا کہ کتنا دیا اور کیا دیا تھا بلکہ شریعت کے بتلائے ہوئے احکامات کے بارے میں سوال ہو گا کہ بیٹی کو ، بہن کو کتنا حصہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک خرابی یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ جس عورت کو لوگ جہیز کے سامان کا ٹرک بھر کر دیتے ہیں اکثر ان کی شادیاں ناکام ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی امیر گھر کی ہوتی ہیں اور اُن کے دماغ میں یہ خناس گھسا ہوتا ہے کہ یہ تو ہم سےکمتر ہیں۔ اب لڑکے والوں کو بھی احساس کمتری ستانے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ عورت مرد پر ہی نہیں بلکہ پورے گھر پر ہی حاوی ہو جاتی ہے پھر وہ اس گھر کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتی ہے تب یہیں سے خرابی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالانکہ خاوند کا گھر خاوند کی مرضی اور بیوی کے تعاون سے ہی چلتا ہے۔ دوسری طرف لڑکے والوں کی طرف سے باقاعدہ آرڈر دیا جاتا ہے کہ رخصتی والے دن فلاں بنکوئٹ ہال بک کرایا جائے اور کھانے کے مینیو میں یہ یہ ڈشز ہونی چاہییں ورنہ آپ لوگوں کے ساتھ ساتھ ہماری بھی ناک کٹ جائے گی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ کس گھر کی بہو لا رہے ہیں جن کو کچھ سلیقہ ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔سوچو تو سہی اس باپ کے بارے میں جس نے اپنی بیٹی کو پالا پوسا ، جوان کیا ، اس کو تعلیم دلوائی ، ساری زندگی کما کما کر اس بیٹی کے جہیز کا سامان بنایا اور اسی خدمت گزار اور نیک صالح لخت جگر کو اپنے گھر سے رخصت کر رہا ہے کیا گزرتی ہو گی اس کے دل پہ ؟ کیا وہ باپ اپنی ہی بیٹی کی شادی کا کھانا بھی چکھ پاتا ہو گا یا نہیں ؟؟؟ اور تم چلے ہو اس سے فرمائشیں پوری کرانے۔۔۔۔۔وہ تو اسی کھانے ک بوجھ تلے ہی دب جاتا ہے بیچارہ لڑکی کا باپ حالانکہ شریعت میں اس کا بھی کوئی حکم نہیں ہے کیونکہ حکم دیا گیا ہے کہ نکاح مسجد میں کرو اور کوئی میٹھی چیز تقسیم کرو چاہے چھوارے ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہاں الٹا نظام ہوتا ہے لڑکے والے چھوارے لے آتے ہیں اور لڑکی والے قورمہ ، پلاؤ ، متنجن ، بریانی اور کئی قسم کے کھانوں سے تواضع کرتے ہیں جو امیر لوگوں کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں مگر غریب آدمی کی کمر دہری ہو جاتی ہے جبکہ اس موقعہ پر کھانا کھلانا صرف ولیمہ والے دن ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ نکاح ایک سنت ہے اور نکاح کونصف ایمان بھی کہا گیا ہے جب یہ سنت پوری ہو جائے اور نصف ایمان مکمل ہو جائے تو بطور شکرانہ کے کوئی کھانا پکا کر لوگوں کو کھلا دیا جائے۔۔۔۔۔مگر اس میں بھی صرف امیروں اور رشتہ داروں کی قید نہیں ہے بلکہ غریب لوگوں کا بھی خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھیے شریعت میں ہمارے لیے آسانی ہے اور رسم و رواج میں ہمارے لیے پریشانی اور تکلیف ہے۔ اب یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم اپنے لیے کون سا راستہ چنتے ہیں ، تکلیف والا یا آسانی والا۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟