اپنے بچوں پر رحم کر کے ان کا نکاح کریں


تحریر حافظ عثمان وحید فاروقی ______________________________________________ میں ایک شادی کی تقرپب میں شامل تھا ۔ وہاں کے رجسٹرار عالم دین میرے جاننے والے تھے ۔ جب لڑکی سے اجازت طلب کرنے کیلیے ورثاء کو بھیجا گیا تو مولانا فرمانے لگے ۔ حافظ صاحب ! آپ نکاح کے متعلق اہم مسائل پہ مختصر گفتگو فرما دیں۔ میں نے انکار کیا تو زور دینا شروع کیا آخرکار میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مہر معجل کا زیادہ مطالبہ اور دیگر غیر ضروری چیزوں کی طرف توجہ دلائی کہ اس مہر معجل (ہمارے ہاں بشکل زیور ) جو دیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے اور جہیز کی وجہ سے اور بڑے پیمانے پہ دعوت کرنے کی رقم جمع کرنا ، بعض جگہوں پہ ڈھول باجے ، آتش بازی کا سامان وغیرہ ان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے مین نکاح بہت ہی مشکل ہو گیا ہے ۔ جس کے نقصانات یہ ہیں کہ زنا عام ہے ، مرد و زن ایک بڑی عمر اپنے جیون ساتھی بغیر گزارتے ہیں۔ نادانی کی عمر ہوتی ہے جن کی رسائی ہو سکے تو وہ زنا اور بدفعلی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ جو بیچارے وہاں تک نہ پہنچ سکیں وہ خواہشات کی تکمیل کے دوسرے راستے استعمال کرتے ہیں مثلا مشت زنی وغیرہ اس لیے ہمیں نکاح کو آسان کرنے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے ۔ ورنہ مغرب کی طرح کہیں ہمارا معاشرہ بھی زنا جیسے قبیح جرم میں نہ ڈوب جائے ۔ جیسا کے کچھ جرائم ہمارے سامنے بھی ہیں۔ اور دوسری بات کہ ہم اس معجل کے علاوہ مہر مؤجل کو بھی مقرر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اس میں بھی اتنی رقم متعین کرتے ہیں۔ جسکی ادائیگی دلہا میاں کے بس میں بھی بعض اوقات نہیں ہوتی ۔ اور نتیجتاً بہت ساری جگہوں میں میاں مقروض ہی فوت ہوتا ہے ۔ اس لیے اگر مہر مؤجل رکھنا ضروری ہی سمجھا جائے تو اتنی رقم رکھا کریں کہ باآسانی دلہا جو دے سکے ۔ اس پر دلہن کے بھائی اٹھ کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حافظ صاحب کتنا مہر رکھ دیں مناسب ہو گا ؟ زیور کی مالیت ڈھائی لاکھ ہے ۔ میں نے عرض کیا پچیس ہزار رکھ دیں۔ اس نی کہا چار لاکھ رکھنے کی سوچ تھی آپ کے کہنے پر پچیس ہی رکھتا ہوں۔ یقیناً دلی خوشی ہوئی ۔ اس لیے ہم اگر اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں سے ہی اس کی ابتداء کرنی پڑے گی ۔ اور گھر کی مستورات کو نرم لہجے میں سمجھائیں۔ کتنے رشتے اس وجہ سے نہ جڑ سکے کہ عورت والوں کی زیورات ڈیمانڈ زیادہ تھی ۔ یا مرد کی طرف سے جہیز کا مطالبہ تھا ۔ اس لیے بھائیو! عزم کیجیے کہ ہم اپنے گھر سے ان غیر ضروری چیزوں کو ختم کرنا شروع کریں۔ جب ایک گھر ہمت کر کے اس جانب پیش قدمی کر لے تو گاؤں کے باقی لوگوں کو بھی اس کا تعاون کرنا چاہیے ۔ اور ان کیلیے آسان بھی ہو جائے گا ۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟