بروقت انصاف سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے


آج ایک نظر معصوم زینب کے تار تار وجود پر ڈالی تو خوف سے کپکپی طاری ہو گئی اور اسی لمحے ، جی ہاں عین اسی لمحے میری اپنی معصوم بیٹی 5 سال کی حوریہ سکول سے واپس آ گئی تو میں نے آگے بڑھ کر بلکہ بھاگ کر اسے اپنے گلے سے چمٹا لیا پھر یکایک خیال آیا کہ یہ زینب تو نہیں ہے یہ تو میری اپنی بیٹی حوریہ ہے لیکن دل نے کہا نہیں نہیں زینب بھی تمہاری ہی بچی تھی بس یہ سوچ کر آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل سے دعا نکلی کہ یااللہ اس قوم کی ہر بچی کو جی ہاں ہر زینب کو ان درندوں سے محفوظ رکھنا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی قوم کی ایک اور بیٹی عافیہ صدیقی بھی میرے دل دماغ پر دستک دینے لگی کہ میں بھی تو اس قوم کی ایک بدنصیب بیٹی ہوں میرا کیا قصور ہے ، مجھے کیوں چند پیسوں کے عوض بیچ ڈالا گیا ؟ اور قوم اب شاید مجھے بھلا چکی ہے چند ایک آوازیں کہیں سے سنائی پڑتی ہیں مگر نقارخانے میں طوطی کی کون سنتا ہے ؟ اس قوم کو کسی کی شادیوں سے ، طلاقوں سے ، افئیرز سے ، کسی ماڈل کے نئے سوٹ اور نئے فیشن سے ، کسی نئی انڈین فلم اور کسی نئے گانے کی دھن سے فرصت ملے گی تو میرے بارے میں بھی شاید سوچ لیں گے ؟ بس یہ سننا تھا کہ شرمندگی اور خجالت سے اپنا منہ اپنے گریبان میں چھپا لیا کہ جب اس قوم کے لیڈر بھی اپنی قوم کی بیٹی بیچ کر اپنی جہنم کا ایندھن بھریں تو پھر اور کیا رہ جاتا ہے ؟؟؟ میرے لیے تو زینب اور عافیہ میں کوئی فرق نہیں ہے یہ دونوں قوم کی بیٹیاں ہیں ان دونوں کے لیے آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی میری اس آواز سے آواز ملائیں اور توانا آواز ہونی چاہیے۔ اس ملک کاسسٹم انصاف دیتا نہیں ہے بلکہ چھیننا پڑتا ہے اور زندہ قومیں وہ ھوتی ہیں جو اپنا حق وصول کرنا جانتی ہیں۔ مردہ قومیں کبھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا تو دور کی بات بولنا بھی گوارا نہیں کرتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اٹھو انصاف کےل یے ورنہ دیر ہو جائے گی اور ظلم کی اندھیری رات بڑھتی جائے گی۔ اب کسی محمد بن قاسم کا انتظار کیے بغیر اپنی بہنوں کی عزت اور غیرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ کتنی بڑی شرم کی بات ہے کہ ہماری بہن کئی سالوں سے دن رات غیروں کے ہاتھ میں ہے اور نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہوں گے اور ہم مزے سے اپنی زندگیاں جی رہے ہیں ، عیدیں منا رہے ہیں اور تمام خوشیاں اٹینڈ کر رہے ہیں۔ اگر کسی کی بھی سگی بہن اس طرح غیروں کے قبضے میں ہوتی تو کیا وہ اس کو اس حال میں دیکھ کر زندہ رہ پاتا ؟؟؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قوت ایمانی کمزور ہونے کی وجہ سے رشتہ اسلامی بھی کمزور ہو چکا ہے۔ اس لیے کہیں بھی مسلمان پر زیادتی ہوتی دیکھ کر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں ہے جبکہ اسلام نے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم اسے محسوس کرتا ہے مگر ہمارے پاس جسم تو کیا خالی ڈھانچہ بھی نہیں رہا ہے کہ جس سے ہماری تھوڑی بہت پہچان ہو پاتی۔ قصور میں ہوئے معصوم بچی کا ریپ اور قتل سے افغانستان کے طالبان دور کا ایک واقعہ یاد آیا۔ لکھتے ہیں کہ ہم نے جمعے کی نماز پڑھی تو لوگ کابل فٹ بال سٹیڈیم کی طرف جا رہے تھے۔ وجہ پوچھنے پہ بتایا گیا کہ آج کسی چور کا ہاتھ کٹنے والا ہے۔ ہم بھی مجمع میں شامل ہو کے سٹیڈیم پہنچے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد گاڑی نمودار ہوئی۔ چور کو گاڑی سے اتارا گیا۔ ساتھ میں ایمبولینس گاڑی بھی کھڑی تھی جس میں ڈاکٹر حضرات بھی تھے۔ کچھ طالبان آئے ، چور کی چوری اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا اعلان ہوا۔ ہاتھ کاٹ لیا گیا۔ ڈاکٹر حضرات مرہم پٹی کر کے ایمبولینس میں ڈال کے تیزی سے ہسپتال کی طرف ہو لیے۔ لکھاری لکھتے ہیں کہ اگلے سال کسی کام سے کابل جانا ہوا تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پورے سال کابل شہر میں چوری کی کوئی ایک واردات بھی نہیں ہوئی۔ بروقت انصاف ہو تو جرائم کی روک تھام ہو سکتی ہے ورنہ اس طرح معصوم بچیوں کے ریپ اور قتل ہوتے رہیں گے۔ جب کسی ایک مجرم کو لا کر بازار کھمبے کے ساتھ لٹکا دیا جائے تو پھر دیکھنا کوئی بھی جرم کرنے کی ہمت نہیں کر پائے گا۔ قصور میں ہونے والا زینب امان کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات مہینہ تو کیا روزانہ کے حساب سے ہو رہے ہیں اور شرح بڑھتی جا رہی ہے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے چاہیے کہ مجرموں پہ مقدمے چلا کر جیل میں بند کرنے کی بجائے سرعام عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ تب ہی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟