صدر مملکت نے شہری کو قتل کرنے والے رینجر اہل کار کی سزائے موت ختم کر دی


یہ ہیں اسلامی مملکت کے کالے قوانین!!! چند سال قبل کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں قتل ہونے والے 22 سالہ نوجوان سرفراز شاہ کے قاتل رینجر افسر کو صدر ممنون حسین کی معافی مگر کس قانون کے تحت ؟ اسلامی شریعت میں صرف مقتول کے ورثا ہی قاتل کو معاف کر سکتے ہیں تو یہ ممنون حسین کس حیثیت سے یہ فیصلہ کرنے والا ہے ! کیا مرنے والا ممنون حسین کا خون تھا جسے اس نے دن رات ایک کر کے پالا پوسا ہو ؟ ممنون حسین کیا جانے کہ یوں سڑکوں و چوراہوں پر سیاسی پارٹیوں اور قانون نافذ کرنے اداروں کی نورا کشتیوں کا شکار بننے والوں کی لاشیں گھر پہنچنے پر کیا کہرام مچتا ہے ، انتقام کے شعلے سینوں میں کتنے بلند تر ہوتے جاتے ہیں ، کتنے کرب بھرے آنسوؤں سے ان مقتولین کو غسل دیا جاتا ہے ، کتنی بددعائیں ان ظالموں کی جلد آسمانی گرفت کے لئے کی جاتی ہیں! ممنون حسین کیا جانے کہ ان بے گناہ مقتولین کا خون عرش پر کیسا لرزہ طاری کرتا ہوگا ، انسانیت کے قاتلوں پر اللہ کا غضب کیسے جوش میں آتا ہوگا. مگر اس کی سنت ہے کہ وہ ڈھیل دیتا ہے بس ایک مقررہ مدت تک... ہر سزائے موت کے قیدی کی رحم کی آخری اپیل صدر مملکت کو جاتی ہے پھر وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ چاہے تو سزا میں توسیع کر دے یا پھر سزائے موت ہی ختم کر دے یہ قانونی اختیار اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ صدر مملکت کا کوئی بندہ پھانسی پر نہ لٹک جائے۔ میں دس سال چار ماہ جیل میں رہا ہوں ایسے سینکڑوں کیس ہمارے سامنے ہوئے ہیں۔ جن کے پاس صدر مملکت تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے مثلاً کوئی وزیر مشیر یا ایم این اے و ایم پی اے تو وہ صدر مملکت تک باآسانی پہنچ کر یہ سزا ختم کروا سکتے ہیں اور یہ بھی ایک قانونی طریقہ بنایا گیا ہے جبکہ اکثر کیس سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ہوتے ہوئے اور ان تمام عدالتوں سے جرم ثابت ہوتے آخری اپیل کے طور پر صدر مملکت کے پاس جاتے ہیں۔ جب تک صدر مملکت اس کی سزائے موت پر دستخط نہیں کر دیتا اسے پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا۔ عدالتوں میں کیس کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں لیکن صدر صاحب کے دستخط کے بعد 90 دن کے اندر اندر پھانسی پر لٹکانا ہوتا ہے ہاں اگر مدعی پارٹی معاف کر دے تو پھر معافی مل سکتی ہے لیکن اکثر پھانسی پر بھی غریب ہی لٹکائے جاتے ہیں جن کے پاس کسی وزیر مشیر یا ایم این اے وغیرہ کی کوئی سفارش نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ پاکستان کا قانون صرف غریب کے لیے ہے۔ امیر آدمی کو نکلنے کے لیے بہت راہیں سی گئی ہیں۔ اگر کوئی امیر آدمی اپنی کسی سیاسی مخالف پارٹی کی وجہ سے جیل جائے تو اسے چند ماہ یا چند سال جیل میں لگ سکتے ہیں کیونکہ دوسری سیاسی پارٹی اس کے جیل سے باہر آنے کی مخالفت کرتی ہے اور اگر اس کوئی سیاسی پارٹی اس کی مخالف نہ ہو تو بڑے بڑے جرائم کے باوجود ہفتوں میں جیل سے باہر ہوتے ہم نے دیکھا ہے۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ اس موضوع پر میرے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر فی الحال میں تھوڑا مصروف ہوں پھر کبھی کھل کر لکھوں گا۔ مگر ڈر ہے کہ قانون کے رکھوالے مجھے اس ملک کے مقدس قوانین کا باغی قرار نہ دے دیں۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟