اجے جھنگوی سانوں نہیں بھلیا


اجے جھنگوی سانوں نہیں بُھلیا = ایثار دی موت مُکا گئی اے _____________________________________________ آہ ایثار القاسمی شہید ! یوم شہادت 10جنوری 1991ء _____________________________________________ امیر عزیمت مولانا حقنواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد مؤرخ اسلام علامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہید رحمہ اللہ نے اعلان کیا کہ شیعو ، جاگیردارو ، او ایرانی گماشتو! اب میں اس مصلے پر ایسے شخص کو کھڑا کروں گا جو تمہاری نیندیں حرام کر دے گا۔ پھر واقعی ایسا ہوا کہ علامہ فاروقی شہید رحمہ اللہ نے نوجوان لیڈر مولنا ایثار القاسمی کا انتخاب کیا۔ علامہ قاسمی اوکاڑہ کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے پھر جھنگ کی دہکتی ہوئی آگ میں قدم رکھا اور مشن حقنواز کی آواز کو وہیں سے ہی بلند کرنا شروع کیا جہاں سے امیر عزیمت نے چھوڑا تھا..... جیسے ہی ایثار القاسمی شہید نے سپاہ صحابہؓ کا عٙلٙم اٹھا کر جھنگ کی دھرتی پر کلمہ حق کو بلند کیا تو سنی عوام یہ نعرہ لگانے لگی کہ "قاسمی تیرے روپ میی جھنگوی کی تصویر ہے" آپ چند دنوں میں ہی سپاہ صحابہؓ کے کارکنوں اور جھنگ کی عوام کے محبوب لیڈر بن گئے۔ پورے ملک میں قاسمی شہید رحمہ اللہ نے کفر اور ایرانی گماشتوں کو للکارنا شروع کیا اور اسی طرح جھنگ کے جاگیردار بھی گھبراتے ہوۓ نظر آئے۔ کراچی سے لے کر جھنگ تک سنی عوام آپ کی گرویدہ ہو گئی اور سپاہ صحابہؓ کے کارکن آپ کو جرنیل سپاہ صحابہؓ کے نام سے پکارنے لگے. قاسمی شہید رح نے جھنگ کی دہکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر جماعت کے حکم سے الیکشن میں آنے کا فیصلہ کیا۔ جھنگ کی عوام کے تو آپ پہلے ہی دلوں میں اتر چکے تھے اور پھر وہی ہوا کہ اہل جھنگ نے اپنی محبت کا اظہار الیکشن کے دن کیا اور مولنا ایثار القاسمی متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہو گئے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں سب سے کم عمر ہونے کے باوجود ظالم جابر حکمرانوں کے سامنے جہاں آپ نے جھنگ کے حقوق کی آواز کو بلند کیا وہیں پر أصحاب رسولؐ کی عزت و ناموس کا مسئلہ بھر پور انداز میں اٹھایا اور عالم کفر بالخصوص ایران کو بھی للکارا جس کی وجہ سے وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ امیر عزیمت مولانا حقنواز شہید رحمہ اللہ کی شہادت سے یہ مشن ، یہ نظریہ ختم ہو جائے گا ان کو اپنی موت نظر آنے لگی۔ یہ نوجوان اگر اسمبلی میں رہا تو أصحاب پیغمبرؑ کی عزت و ناموس کا قانون بنوا کر ہی دم لے گا........ ادھر دوسری طرف جھنگ کے جاگیردار پریشان ہونے لگے اور مولنا ایثار القاسمی شہید کی طرز سیاست کو دیکھ کر ان کو اپنی سیاست کا جنازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جھنگ سے نکلتا نظر آیا کیونکہ ایثار القاسمی ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا حقیقی غلام بن کر انہی کی سنت کو زندہ کرتا ہوا رات کی تاریکی میں جھنگ کی گلیوں میں پہرہ دیتا ہوا نظر آیا. جب یہ حالات عالم کفر اور جھنگ کے جاگیردار نے دیکھے تو ایک بار پھر ایرانی پیسہ استعمال ہوا اور جھنگ میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا. آئے روز مولنا قاسمی شہید کے سامنے جنازے ہوتے ، مولنا قاسمی شہید نے ایک دن ایک جنازے پر بڑے درد بھرے لہجے میں اشکبار آنکھوں سے یہ فرمایا "لوگو! میں جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گیا ہوں اب میری زندگی میں تم کسی اور کا جنازہ نہیں دیکھو گے ، یا تو میں خود جام شہادت نوش کر لوں گا یا عالم کفر کو لگام ڈال دوں گا ان شآءاللہ" آہ! پھر وہی ہوا کہ ایرانی پیسے پر جھنگ کے جاگیردار جو کہ دراصل شیعہ تھے اور ان کے ساتھ پاکستان کے ایرانی گماشتے مولنا قاسمی شہید کی جان کے دشمن بن گۓ اور پھر 10جنوری 1991 کو جھنگ میں آپ کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ امیر عزیمت شہیدرحمہ اللہ کی شہادت کے ٹھیک ایک سال بعد سنی قوم اور اہل جھنگ کو اپنے ایک اور محبوب راہنما سے جدا ہونا پڑا , ایثار القاسمی شہید پوری سپاہ صحابہؓ کو یتیم کر گۓ۔ امیر عزیمت کی شہادت کے بعد سپاہ صحابہؓ کے کارکنوں کے لیے یہ دن قیامت کا دن تھا اسی کی منظر کشی شاعر انقلاب جناب شہادت علی طاہر جھنگوی نے کیا "اجے جھنگوی سانوں نہیں بھلیا ، ایثار دی موت مکا گئی اے" آہ! عظيم لوگ عظیم مشن پر قربان ہو گئے مگر انکا نظریہ ، مشن ، سوچ آج بھی زندہ ہے اور قاسمی شہید کی روح سے سپاہ صحابہؓ کا ایک ایک کارکن یہ وعدہ کرتا ہے اے قائد آپ کی جدائی کا صدمہ ضرور ہے ، آپ کے جانے کا غم ضرور ہے ، آپ کے جانے کے بعد ہم نے آپ کا ہی لیڈر ضیاء الرحمن فاروقی اور أپ کا بھائی مولنا اعظم طارق اور علی شیر حیدری جیسے عظیم عالم اور ملک اسحاق جیسے عظیم مجاہد اور سات ہزار سے زیادہ لیڈر نوجوان قربان تو کر دیے مگر اس عٙلٙم کو گرنے نہیں دیا ، آج بھی صدیق و فاروق عثمان و علی رضی اللہ تعالٰی عنھم اور سیدہ کائنات امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا و دیگر صحابہؓ کی عزت و ناموس کے لیے آج بھی الحمدللہ میدان میں ہیں۔ اور آپ کی روح سے یہ وعدہ کرتے ہیں جب تک جسم میں جان ہے آپ کی طرح جام شہادت نوش کر لیں گے یا أصحاب پیغمبرؐ کے گستاخ کے لیے موت کا قانون بنوا کر دم لیں گے۔ ان شآء اللہ

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟