ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں


*ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں* ______________________________________________ وہ ایک ڈاکٹر تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے۔ اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لیے ؟ تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جس کا نام صدیق ہو ، عمر ہو ، عثمان ہو ، علی ہو یا خدیجہ ، عائشہ اور فاطمہ ہو اور میں اس سے پیسے لوں۔ ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدین ، امہات المومنین اور بنات رسولﷺ کے ہم نام کے لوگوں سے پیسے نہ لیے ۔ یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔ امام احمدطبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے کہ ان کا شاگرد بھی وضو کرنے آن پہنچا ، لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔ پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔ مجھے شرم آئی کہ استاد صاحب میرے مستعمل پانی سے وضو کریں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا میں ؟ (عمر پوچھنا مقصود تھا) صحابیؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ بڑے تو آپ ہی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ہے۔ مجدد الف ثانی رات کو سوتے ہوئے یہ احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے ۔ ادب کے یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ہے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یا د تھا کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیا ر نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا ، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اس کے صدقے اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔ اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے رزق میں اضافہ کرے وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔ ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ہے یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ اس نے کہا عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ہے مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ہے کہ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور انہی کی دعا کا صدقہ ہے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ہے۔ اسی طرح راقم الحروف کو والدہ نے کہا کہ بیٹا تمہارا وراثت کا جو مکان ہے وہ اگر بڑے بھائی کو دے دو تو کتنا اچھا رہے تمہیں اللہ خوب دے گا۔ راقم نے نہ حیل کی نہ حجت ، جھٹ پٹ وہ بھائی کے نام لکھ دیا۔ آج الحمد للہ ان کی دعا کا صدقہ ہے کہ اللہ نے واقعتاً خوب دیا ہے۔ میرے بھانجے نے ملازمت چھوڑی تو جو پیسہ بھی ملا ، وہ والدین کے عمرے پہ لگا دیا۔خالی ہاتھ رہ گیا ، اسی کی صدقے اللہ نے کرم کیا ، دوسر ی ملازمت ملی اور آج لاکھوں میں کھیلتا ہے ۔ والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہ کے زمانے سے چلا آر ہا تھا۔ حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباسؓ کسی صحابیؓ سے کوئی حدیث حاصل کرنے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھے رہتے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابیؓ خود ہی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا ، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے ۔ وہ صحابیؓ شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں ، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کام کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔ کتنی ہی مدت ہمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے ) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ہوتا ہے وہ وہیں بیٹھتا ہے اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے ہیں جبکہ اسکولوں میں اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے ۔ مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا ، چھوٹا تھا اور بڑا ، بڑا ۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔ ابن عمرؓ جارہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے ، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ہو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا تو فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔ اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔ اب برابری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ہو گئے اور شاگرد استاد کے برابر۔ جس سے وہ سار خی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔ اسلام اس مساوات کا ہر گز قائل نہیں کہ جس میں گھوڑا اور گدھا برابر ہو جائیں اور ابوبکر اور ابوجہل برابر۔ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ لاکھ زمانہ بدلے مگر ابوبکر ، ابوبکر رہے گا اور ابو جہل ، ابو جہل۔ گھوڑا ، گھوڑا رہے گا اور گدھا، گدھا۔ اسی طرح استاد ، استاد رہے گا اور شاگرد ، شاگرد ۔والد ، والد رہے گا اور بیٹا ، بیٹا۔ سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ہے اُن کو اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ہی تہذیب کا حسن ہے۔ مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار اسی راستے سے ہوا ہے جبکہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رہے ہیں۔ عریانی اور فحاشی کا بُرا ہونا سب کو سمجھ آتا ہے اس لیے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ہے جبکہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اہمیت کا سمجھ آنا مشکل ہے اس لیے یہ قدر تیزی سے رو بہ زوال ہے اور معاشرے کی توڑ پھوڑ بھی اسی تیزی سے جاری ہے۔ فی زمانہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس قدر کی اہمیت کو اجاگر کریں ۔حفظ مراتب کا خیا ل رکھیں ، بڑے کو بڑا سمجھیں اور چھوٹا کو چھوٹا اور انہیں ان کے مقام کے لحاظ سے ان کا حق بھی دیں۔ یہ بات ازبر ہونا از حد اہم ہے کہ جس محبت سے ادب خارج ہو جائے وہ محبت بس ایک دعوی تو ہے حقیقت نہیں۔ ہر رشتے کی محبت ایک خاص ادب اور آداب چاہتی ہے ۔ ان آداب کا پورا کرنا ہی محبت کا حق ادا کرنا ہے ۔ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو اللہ و رسولؐ کی بات کو اس لیے مانتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں آ گئی ہے اور قرین عقل ہے اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی ، رسولؐ کی ، والدین کی ، استاد کی بات محض اس لیے مان لیتے ہیں کہ بس ان کا کہنا ہی کافی ہے۔ ہماری نظر میں دوسری قسم کے لوگ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی آگے بڑھنے والے ہیں۔ آخرت میں اس لیے کہ انہوں نے اپنی عظمت کی نفی کی اور دنیا میں اس لیے کہ جن کی مان کر انہوں نے عمل کیا وہ بھلا پھر ان کو کہاں گرنے دیں گے۔ اگر خود سہارا نہ بن سکے تو ان کی دعائیں سہارا بنیں گے اور دعا یقیناً سب سے بڑا سہارا ہے کہ جہاں سب سہارے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں وہاں کسی کی دی ہوئی دعا آگے بڑھ کر تھام لیتی ہے ۔ تو ہے کوئی دعا لینے والا۔۔۔ ۔۔۔ !

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟