غلامان صحابہ سے ایک ضروری گزارش


ایک ضروری گزارش علامان صحابہ سے: آپ کے عزم و حوصلے اور ہمت و جوانمردی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ نے صبر و تحمل سے ہر طوفان کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی ان شآء اللہ کرو گے وہ دور کتنا تکلیف دہ تھا کہ فاروقی صاحب کا جنازہ اٹھا جا رہا تھا اور مولانا اعظم طارق صاحب ہسپتال میں تھے پھر مولانا اعظم طارق صاحب کا جنازہ گویا قیامت صغرٰی تھا۔ ابھی سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ حیدری شہید نے یتیم کر دیا اور روزانہ ایک ایک ساتھی کی شہادت کی خبر ہمیں مل رہی ہے۔ کسی نے ہمارے زخموں پر مرہم نہیں رکھا ہے۔ ہم آپس میں درد بانٹ رہے ہیں۔ اپنی قیادت کے بیانات سن کر نئے عزم سے پھر میدان میں آتے ہیں۔ ہمیں کسی شحصیت یا کسی جماعت سے کوئی خیر کی امید نہیں ہے لیکن اگر کسی نے ہماری تیس سالہ قربانیوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی تو پھر ایسے شخص کی کوئی رعایت نہ کی جائے۔ علامان صحابہؓ اتفاق و اتحاد اور نظم و نسق کا ظاہرہ کریں۔ پچھلے دو مہینے سے جمعیت کا گل نصیب ، حافظ حمداللہ اور فضل الرحمن نہایت خطرناک انداز میں مشن جھنگوی پر وار کر رہے ہیں۔ گل نصیب نے علما کنونشن کے بھرے جلسے مردان و پشاور میں مشن حقنواز کو فتنہ کہا ہے۔ فضل الرحمان نے اسمبلی میں شیعہ کو مسلم کیمونٹی کہا ہے اور حمداللہ نے بھی دو تین بار شیعہ کو کلمہ گو مسلمان بھائی کہتے ہوئے کہا ہے کہ جس اللہ کو میں مانتا ہوں اسی اللہ کو شیعہ بھی مانتا ہے ، جس نبیؐ کو میں مانتا ہوں اسی نبیؐ کو شیعہ بھی مانتا ہے اور جس قرآن کو میں مانتا ہوں اسی قرآن کو شیعہ بھی مانتا ہے ، شیعہ ہمارا اختلاف صرف چند عبادات پر ہے۔ تو بھائیو! جمیعت والے سارے ایک منصوبے کے تحت پاکستان میں شیعہ کو اسمبلی سے مسلمان ڈکلیئر کرانے کے چکر میں لگتے ہیں حالانکہ پوری امت شیعہ کے کفر پر متفق ہے۔ شام ، عراق ، سعودی عرب ، دبئی اور ملائشیا سمیت پاکستان و انڈیا اور بنگلہ دیش کے علماء و عوام شیعہ کے کفر پر متفق ہیں اور اس پر ہزاروں کی تعداد میں فتاوٰی جات بھی موجود ہیں۔ اب ایسے حالات میں ہمیں اپنے ملک مزید محنت کرنی چاہیے۔ ان نام نہاد دین کے ٹھکیداروں کے چہروں سے نقاب کو ہٹانا چاہیے۔ علامہ ارونگزیب فاروقی اور علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب کی قیادت میں مزید سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ ایران سے چند سکے لے کر دین اسلام اور اپنے ضمیر کا سودا کر کے جمیعت نے دیوبندیوں کو آپس میں ہی لڑا دیا ہے۔ اللہ انہیں غرق کرے گا اور آہستہ آہستہ ہو بھی رہے ہیں۔ بہت سے علماء و عوام اب جمیعت سے بدظن ہو کر دوسری سیاسی پارٹیوں میں جا رہے ہیں۔ پہلے ہم نہیں چاہتے تھے کہ جمیعت ٹوٹے مگر اب ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ پاک جمیعت کو ریزہ ریزہ کر دے۔ کیونکہ اب جمیعت کھل کر نہ صرف شیعہ کا تحفظ کر رہی ہے بلکہ اسے مسلمان بھی کہہ رہی ہے اور یہ کوئی حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یہ جو آج حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ مولانا فضل رحمان نے مسلمان ہونے کا بیان دیا ہے اس میں قصور سپاہ کا بھی ہے جس نے آج تک کبھی مولانا کی محالفت نہیں کی اس کے برے کام کو بھی اچھا کہتے تھے یا حاموش رہتے تھے اب اس کا مجھے پتا نہیں کہ ان کو پتا نہیں تھا کہ مولانا کافر کو مسلمان سمجھتا ہے یا پتہ تھا. اگر پتا تھا پھر وہ محالفت نہیں کرتے تھے تو وہ زیاتی کرتے تھے اور جب تک سپاہ اپنے پرائے کا فرق ختم نہیں کرتی تب تک اس کا منزل تک پہنچا مشکل ہے. میں سلام کرتا ہوں علامہ دیشانی صاحب کو کہ جس نے کھل کے محالفت کی جمعیت کی اور کرنا بھی اسی طرح چاہیے. سلام علامہ دیشانی

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟