جاوید احمد غامدی کے موسیقی خیالات کا رد


محترم قارئین کرام! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بعض لوگوں کو اپنی واہ واہ اور انفرادیت دکھانے کا بہت شوق ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے عجیب و غریب حرکات بھی کرتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح کچھ لوگ اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کر کے ایک نیا اور خود ساختہ اسلام پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اُن میں ایک نام جاوید احمد غامدی کا بھی ہے۔ جاوید احمد غامدی اس دور کا بدترین فتنہ ہے جو کہ قرآن و احادیث کا کهلم کهلا انکار کر رہا ہے اور قرآن و احادیث کو مطلب کا معنی دے کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ جب بهی کوئی فتنہ امڈا اہل توحید نے اس کے خلاف قلمی جہاد بھی کیا اور عملی بهی اور اس فتنے کو بےنقاب کیا ہے الحمدللہ۔ جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں کہ موسیقی حلال ہے آئیے اسکی مکمل تفصیل دیکهتے ہیں ۔ "اے ایمان والو ! اپنے نبی کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرو ۔ نہ ہی انہیں ایسے پکارو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے کے سارے اعمال برباد کر دیے جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔" (القرآن ۔ سورہ الحجرات ۔ آیت نمبر 2 ( جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ان دنوں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی محفل میں ایک صحابیؓ آیا کرتے تھے جن کی آواز فطرتاً بہت بلند تھی ۔ انہوں نے جب یہ آیت سنی تو گھر بیٹھ گئے اور نبیؐ کی محفل میں آنا چھوڑ دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی غیر موجودگی محسوس کی تو ان کو بلوایا اور وجہ پوچھی۔ تو انہوں نے کہا کہ یا رسول ﷲ ! میری آواز فطرتاً بہت بلند ہے ، میں چاہوں بھی تو آہستہ نہیں بول سکتا۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس آیت سے مراد فطری آواز نہیں بلکہ یہ کہ تم میرے فیصلے پہ اپنے فیصلے کو فوقیت مت دو ۔ ایک مرتبہ نبی صلی ﷲ علیہ و سلم کے حضور ایک یہودی اور ایک منافق کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ وہ منافق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا کہ آپ مسلمانوں کا درد رکھتے ہیں آپ میرے لئے کوئی بہتر فیصلہ کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس منافق کی گردن کاٹ دی یہ کہہ کر کہ جس کو رسول ﷲ کے فیصلے پر تسلی نہیں اس کے لئے میرا یہ فیصلہ ہے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ ایک شخص کھڑا ہوا تو آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ وہ شخص بیٹھ گیا مگر عین اسی وقت ایک صحابیؓ مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ ایک پیر دروازے کے اندر تھا ایک باہر۔ کان میں نبیؐ کی آواز پڑی بیٹھ جاؤ تو وہ وہیں بیٹھ گئے۔ جب نبی صلی ﷲ علیہ و سلم نے توجہ کی تو ان سے پوچھا کہ آپ وہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ تو عرض کی یارسول ﷲ ! میں مسجد میں داخل ہو رہا تھا کہ آپ کی آواز سنی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا وہ حکم آپ کے لئے نہیں تھا۔ ان صحابی کا نام عبدﷲ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ تھا جن کو نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم نے اسلام کا فقیہ قرار دیا۔ فقیہ کا مطلب ایک ایسا شخص جو کمال ذہانت سے دین کی مشکل ترین اصطلاحات کو خود بھی سمجھے اور دوسروں کو بھی سمجھائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عبدﷲ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو اتنی سی بات سمجھ نہ آئی ہو گی کہ میں تو ابھی مسجد میں داخل ہو رہا ہوں یہ حکم میرے لئے کیسے ہو سکتا ہے ؟ آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں نبی صلی ﷲ علیہ و سلم سے محبت کے دعوے داروں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر اس کا عملی نمونہ پیش کرنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ۔ حدیثوں کو صحیح جانتے ہوئے بھی ان پر تاویلیں گھڑی جاتی ہیں اور اپنی من پسند چیز کو جائز بنا لیا جاتا ہے۔ جاوید احمد غامدی کے مطابق موسیقی حرام نہیں ہے۔ جس کی وضاحت ایک ویڈیو میں وہ یوں کرتے ہیں ۔ "سورہ الاعراف کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ "صرف" پانچ چیزیں ﷲ نے حرام قرار دی ہیں۔ جو یہ ہیں ۔ 1 ۔ کوئی فحش کام نہیں ہونا چاہئے ۔ 2 ۔ حق تلفی نہیں ہونی چاہئے ۔ 3 ۔ کسی کی جان مال آبرو کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے ۔ 4 ۔ ﷲ کی طرف کوئی بات منسوب کر کے کہا جائے کہ یہ ﷲ کا دین ہے اور وہ ﷲ کا دین نہ ہو ۔ 5 ۔ شرک کرنا ۔" ان پوائنٹس کو میں ذرا سمیٹ دوں تھوڑا تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اصل میں یہ پانچ نہیں چار پوائنٹس ہیں ۔ 1 ۔ فحاشی حرام ہے ۔ 2 ۔ حق تلفی حرام ہے چاہے وہ جان کی ہو مال کی ہو یا کسی بھی قسم کی ۔ 3 ۔ بدعت حرام ہے ۔ 4 ۔ شرک حرام ہے ۔ اب یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں جو گنوائی گئیں وہ حلال ہیں۔ بلکہ یوں بتایا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ صرف یہ پانچ عمل حرام ہیں بس۔ باقی سب کچھ حلال ہے جس میں انہوں نے موسیقی کو بھی شامل کر دیا۔ اس بات سے قطع نظر کے سورہ الاعراف کی آیت میں ﷲ نے "صرف" کا لفظ استعمال کیا ہے کہ نہیں ہم صرف موسیقی پر ہی گفتگو کریں گے ۔ سورہ الاعراف کا ترجمہ آپ خود پڑھ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا واقعی ﷲ نے "صرف" انہی چیزوں کو حرام کیا ہے ؟ موسیقی کے خلاف رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی بڑی مشہور حدیث صحیح بخاری میں کتاب الشرابہ میں موجود ہے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ زنا کو ، ریشم پہننے کو ، شراب پینے کو اور موسیقی کو حلال کر لیں گے۔ ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے: " ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئيں گے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى کو حلال كر ليں گے اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كرے گى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئيں گے اور ان كے پاس ايك ضرورت مند اور حاجت مند شخص آئے گا وہ اسے كہيں گے كل آنا تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاک كر دے گا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تک بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر دے گا " امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ( 5590 ) ميں معلقاً روايت كيا ہے اور امام بيہقى نے سنن الكبرى ميں اسے موصول روايت كيا ہے اور طبرانى ميں معجم الكبير ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 91 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، ان حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس طرح زنا ، ریشم پہننا اور شراب نوشی حرام ہے بالکل اسی طرح موسیقی بھی حرام ہے۔ بدقسمتی سے میں چاہوں یا نہ چاہوں مگر یہ احادیث جاوید احمد غامدی صاحب پر پوری پوری فٹ بیٹھ رہی ہیں کیوں کہ غامدی صاحب نے جو اپنی حرام کی لسٹ بنائی ہے اس میں نہ زنا ہے نہ ریشم ہے نہ موسیقی کے آلات ہیں اور شراب کا کچھ پتہ نہیں کیوں کہ انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ یہ پانچ چیزیں حرام ہیں تو ظاہر ہے سب پینے کی چیزیں تو حرام نہیں ہیں اب انہوں نے اپنی کھانے پینے والی حرام چیزوں کی لسٹ نہیں دی جس سے پتہ چلے کہ شراب حرام ہے یا حلال ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب آپ کسی دینی معاملے پر غور و فکر کرتے ہیں تو ہر قسم کے عقائد سے اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان کے دل میں کسی برے کام کی پہلے سے محبت یا عادت موجود ہو تو پھر کچھ بھی کہتا رہے قرآن اور کچھ بھی کہتی رہے حدیث انسان تاویل گھڑ ہی لیتا ہے۔ جب ان سے شرمگاہ کے متعلق پوچھا گیا تو کہا حرام ہے مگر نکاح کے بعد حلال ہو جاتی ہے لہٰذا موسیقی کو بھی اسی مناسبت سے لیا جائے گا کہ اس کی کچھ قسمیں حلال ہو سکتی ہیں اور کچھ حرام تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ موسیقی کی کون سی قسم حرام ہے اور کون سی حلال۔ جماع کی وضاحت سے تو قرآن و حدیث بھرے پڑے ہیں کہ آزاد شہوت رانی نہ کرتے پھرو بلکہ نکاح کرو یا لونڈیاں مخصوص کر لو۔ موسیقی کی کیا وضاحت ہے ؟ طبلہ بجانا حلال ہے اور ڈرم بجانا حرام ؟ ستار حلال ہے گٹار حرام ؟ یا اسٹیریو سسٹم کا والیوم پچاس سے بلند نہ ہونے پائے ورنہ حرام ہو جائے گا ؟ یہ وضاحتیں کون کرے گا ؟ موسیقی حلال آپ نے کر دی کہ کچھ قسمیں موسیقی کی حلال ہیں اور کچھ حرام اب اس کی تفصیلات کہاں سے آئیں گی ؟ کیسے پتہ چلے گا کہ جو موسیقی ہم سن رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام ؟ کوئی اگر اپنی خوش الحانی سے کوئی کلام پڑھتا ہے تو وہ جائز ہے اس وقت تک جب تک اس میں کسی حرام چیز کی ملاوٹ نہ ہو جائے ۔ مثلاً اگر یہ گایا جائے کہ "کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے" تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث برکت و ثواب بھی ہے کہ اس میں ﷲ کی تعریف کی جا رہی ہے۔ مگر اگر اس کے ساتھ موسیقی شامل کی جائے گی تو یہ پورا کا پورا حرام ہو جائے گا ۔ پھر چاہے آپ کسی کی بھی تعریف کریں وہ حرام ہی رہے گا ۔ ایک گلاس دودھ میں چند قطرے شراب کے مل جائیں تو پورا دودھ حرام ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ حرام ہے بلکہ چند قطرے شراب نے اسے حرام کر دیا۔ گانے میں موسیقی نہ بھی شامل ہو تب بھی وہ محض اپنے الفاظ کی وجہ سے حرام ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ مجھے تم سے پیار ہے اب اس میں مخاطب دو ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اسے اپنی بیوی کے لیے کہے تو حلال ہے۔ مگر اگر مخاطب کوئی نامحرم ہو تب حرام ہو جائے گا اور حرمت کی وجہ آواز کی خوش الحانی نہیں بلکہ الفاظ کا انتخاب ہے۔ شاعری کے معاملات بھی اس سے ملتے جلتے ہیں کہ جو شاعری کسی اچھے مقصد کے لئے کی جائے گی جیسے جنگوں کے دوران حوصلہ افزائی کے لئے خود نبی صلی ﷲ علیہ و سلم نے اشعار کہلوائے ، تو وہ پسندیدہ ہو گی اور شریعت کی حدود کے اندر ہو گی۔ حدود سے تجاوز خواہ کسی معاملے میں ہو نقصان دہ ہے۔ اِسلام کی رو سے گانا بجانا حرام ہے ! گانے بجانے کی حرمت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِ باری ہے : ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ٦ ﴾...... سورة القمان " لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے" جمہور صحابہ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر ساز و سامان ، موسیقی کے آلات اور ہر وہ چیز جو انسان کو خیر اور بھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کر دے۔ اس میں ان بدبختوں کا ذکر ہے جو کلام اللہ سننے سے اِعراض کرتے ہیں اور ساز و موسیقی ، نغمہ و سرور اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد بھی یہی ہے کہ آلات ِطرب و شوق سے اپنے گھروں میں لاتے ہیں اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں- لہو الحدیث میں بازاری قصے کہانیاں ، افسانے ، ڈرامے ، ناول اور بے فائدہ سنسنی خیز لٹریچر ، رسالے اور بے حیائی کا پرچار کرنے والے اخبارات سب ہی آ جاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ، ریڈیو ، ٹی وی ، وی سی آر ، ویڈیو فلمیں ، ڈش انٹینا وغیرہ بھی۔ (۲) گانا بجانا شیطان کی آواز ہے...ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ.......٦٤ ﴾....... سورة الاسراء " اور اے شیطان! تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے ، بہکا لے" آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے موسیقی اور لہوولہب کے دیگر آلات ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں: "اس سے مراد صوت المزامیر یعنی شیطان کی آواز گانے بجانے ہیں۔" ابن عباس فرماتے ہیں"گانے اور ساز لہوولہب کی آوازیں یہی شیطان کی آوازیں ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو حق سے قطع کرتا ہے" (قرطبی)۔ اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کے راستوں کی پیروی سے روکا ہے کیونکہ اس کے سارے ہتھکنڈے بے حیائی اور برائی کے داعی ہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ‌ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ‌......٢١ ﴾...... سورة النور "اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم مت چلو جو شخص شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔" فاحشة کے معنی بے حیائی کے ہیں۔ شیطان کے پاس بے حیائی کی طرف مائل کرنے کی بہت راہیں ہیں۔ فحش اخبارات ، ریڈیو ، ٹی وی ، فلمی ڈراموں کے ذریعہ جو لوگ دن رات مسلم معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اس کو پہنچا رہے ہیں تو یہ سب شیطانی جال ہیں۔ اس آیت سے ما قبل وہ آیات ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر لگائی تہمت کا ذکر ہے کہ "جن لوگوں نے آپ پر فحش کا الزام لگایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس جھوٹی خبر کو صریح بے حیائی قرار دیا اور اسے دنیا و آخرت میں عذابِ الیم کا باعث قرار دیا ہے" لیکن جو لوگ ان آلات کے چینل چلانے والے اور ان اداروں کے ملازمین ہیں تو وہ اللہ کے ہاں کتنے بڑے مجرم ہیں جو آئندہ نسلوں کی تباہی کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ (۳) ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ٥٩ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ٦٠ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ٦١ ﴾...... سورة النجم "پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور بطورِ مذاق ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو بلکہ گانے گاتے ہو" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:«نداء السمود هو الغناء في لغة الحجر»یعنی حجر قبیلہ کی زبان میں سُمود سے مراد گانا ہے... حضرت عکرمہ فرماتے ہیں: "کفارِ مکہ کی بھی عادت تھی کہ وہ قرآن کریم سننے کی بجائے گانے گاتے تھے" آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی خوبصورت آواز کے معجزے کو موسیقی کو حلال ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانی آواز اپنی اصل میں خوش الحانی کی وجہ سے حرام نہیں ہوتی اور داؤد علیہ السلام تو زبور کو خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے وہ بھی بغیر موسیقی کے لہٰذا اس سے موسیقی کے پرستاروں کو کچھ نہیں ملنے والا۔ و ما علینا الا البلاغ

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟