ملا محمد عمر مجاہد کا یوم وفات


سوشل میڈیا نے یاد دلایا کہ آج یعنی 3 اپریل کو اس شخص کی برسی ہے جس کا نام ملا محمد عمر تھا اور دنیا جسے ایک دہشت گرد کے نام سے یاد کرتی ہے. اس کی تصویر دیکھی .سادہ سا ایک پشتون ، سر پر سیاہ دستار۔ موبائل ہاتھ میں پکڑے کتنی ہی دیر میں یہ تصویر دیکھتا رہا. میں نے بہت چاہا میں اسے نفرت کی نگاہ غلط سے دیکھوں اور آگے بڑھ جاؤں. لیکن میں ایسا نہ کر سکا. نفرت نہ کر سکا تو پھر میں نے روشن خیالی کے کم تر درجے کے تقاضوں کے پیش نظر چاہا میں اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاؤں. افسوس میں یہ بھی نہ کر سکا. ایک طلسم کی طرح اس کی وہیں اٹک گیا. اس کی دستار کے پیچوں میں ہی نظریں الجھ الجھ کر رہ گئیں. میں نے خود کو سمجھایا : یہ دہشت گرد کی تصویر ہے اور مجھے اس سے نفرت کرنا ہے. نفرت کے جذبات مگر مجھے کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکے. میں نے خود کو تسلی دی کہ ایک ذرا صبر کرو اس سے نفرت کے دلائل میں ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں..... اور پھر چشم تصور مجھے نوے کی دہائی میں لے گئی. جب افغانستان کے منظر نامے پر ملا عمر طلوع ہوا. کوئٹہ کے ولی خان کی زبانی پتا چلا ملا عمر کیا کر رہا ہے اور ولی خان مولویوں کا کتنا بڑا مخالف تھا اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے. مجھے ولی خان نے بتایا کہ اقتدار تو یہاں منتقل ہی بندوق کی نالی سے ہوتا ہے لیکن ملا عمر کے آنے سے یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی عزتیں محفوظ ہو گئیں ہیں. غنڈوں کی بدمعاشی سے تنگ معاشرے نے اسے خوش آمدید کہا. گلبدین اور احمد شاہ مسعود نے ملک کو ہوس اقتدار میں کھنڈر بنا دیا تھا. ملا عمر نے اس کے ایک حصے کو سنبھال لیا. دوسرے حصے میں مزاحمت رہی مگر جہاں اس کا اقتدار تھا اس نے کمال کر دکھایا. ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان جیسا معاشرہ غیر مسلح ہو گیا. ایک حکم جاری ہوا اور پوست کی کاشت بند ہو گئی. اس سے کچھ سختیاں بھی ہوئیں لیکن بتدریج اقتدار کی ذمہ داری اسے نرم کرتی چلی جا رہی تھی اور وہ فیصلوں پر ہٹ دھرمی سے ڈٹ جانے کی بجائے ان پر نظر ثانی کرتا رہا. اس کی سادگی تو ایک مثال تھی جس نے لوگوں کے دل جیت لیے. لاکھوں نوجوانوں نے اس کی ذات سے اسلام کی نشاہ ثانیہ کی امید وابستہ کر لی. پھر امریکہ اس پر حملہ آور ہو گیا. مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا. ملا عمر کا اقتدار ختم ہو گیا. وہ در بدر ہو گیا. لیکن کوئی ثابت کر دے اس نے مرتے دم تک پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولا ہو. یہاں پاکستان کے خلاف پاکستانی سیاستدان بکنے سے باز نہیں آتے. وہ تو پرایا تھا لیکن پاکستان کے خلاف نہیں بولا. پھر یہاں پراکسی شروع ہو گئی. امریکہ اور بھارت کی سرپرستی میں پاکستانی حکومت سے نالاں عناصر کو جمع کیا گیا. مجرم عناصر بھی اکٹھے کیے گئے اور ان کا نام طالبان رکھ دیا گیا. میڈیا کی سر پرستی میں پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان سے لڑنے والے یہ طالبان وہی ملا عمر والے طالبان ہیں. لیکن حقیقت مکمل طور پر یہ نہیں تھی. آج جب امریکی بم کے نتیجے میں داعش وغیرہ کے افغانستان میں ٹھکانے تباہ ہوئے تو معلوم ہوا وہاں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لوگ بھی مارے گئے. یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے لڑنے والے عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کو طالبان کہا جاتا ہے. انفرادی طور پر کچھ لوگ ہوں تو ہوں ملا عمر کے طالبان بطور ایک گروہ کبھی پاکستان سے نہیں لڑے. ملا عمر کے نام کو نام نہاد روشن خیال سیکولر بیانیہ بھلے جتنا دشنام دے لے وہ پاکستان کا دشمن نہیں تھا. تاریخ اسے حیرت سے دیکھے گی اور مؤرخ اس کے تذکرے کرتے وقت سراپا سوال ہو گا۔ ایمان کی طاقت سے دنیا کے سپر پاور امریکہ اور اس کے 36 اتحادیوں کی ناک زمین پر رگڑنے والا دین اسلام کے محافظ مجاہد ملا محمد عمر رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ عمر ثالث پر ہمیں فخر ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟