ہمارے معاشرے میں احساس کا فقدان کیوں ؟


جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے اردگرد اڑوس پڑوس میں اگر کوئی انتقال کر جاتا تھا ۔ تو پورے کا پورا محلہ سوگوار ہو جاتا تھا ۔ ہر شخص غمگین وحزین ہوتا تھا ۔ متوفی کے گھر میں کھانے پہنچائے جاتے تھے ۔ ویسے ہی ہماری دیہی بہت سی مراسم (جسے ہم اخوت و بھائی چارگی کا نام بھی دے سکتے ہیں ) کیا خوب تھیں ۔ صبح اٹھ کے بزرگ پورے محلے کا چکر لگا کر سب کی خریت دریافت کرتے تھے ۔ شام کو کسی ایک جگہ بیٹھ کے گپیں اور شام کا کھانا کسی بھی متعین شخص کے گھر کھانا ۔ شادی بیاہ وغیرہ میں پہاڑی زبان کی شاعری غزلیں ، گیت وغیرہ ۔ سب بہت خوب تھیں۔ رفتہ رفتہ تعلیم کی جانب رجحان بڑھتا گیا ۔ اور اغیار سے متاثر ہو کے ہم نے اپنی انسان دوست ثقافت کو بہت کم وقت میں تہس نہس کر دیا ۔ اور آج کا دس سال کا بچہ ان ساری باتوں سے نا آشنا ہے ۔ کہین چیدہ چیدہ جوانون نے بیت بازی ، نیزہ بازی ، لکڑی ، گتکا وغیرہ دیکھا تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پن چکی (جندر) میں آٹا پسوانا ، تھنیال سے پولین بنانا ، وغیرہ یہ ساری چیزیں اب ناپید ہو چکی ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ یہ باتیں تو ضمناً آ گئیں اصل بات جس کی طرف توجہ مبذول کروانا تھی ۔ وہ یہ کہ ہمارے ہاں کسی بھی شخص کی موت صرف اس خاندان یا گھرانے کے لیے نہیں بلکہ یورے علاقے کے لیے ایک درد اور کرب لے کر کر حاضر ہوتی تھی ۔ کئی دنوں تک مرحوم کا ذکر خیر ہوتا تھا ، صبح و شام اسے یاد کیا جاتا تھا ۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں میں موت کی یاد اور خوف خدا غالب تھا ۔ صوم و صلوة کی پابندی تھی ۔ لیکن اب اُن ساری کی ساری چیزوں کے ختم ہونے کے ساتھ ہمارے اندر سے مرنے والے کا احساس بھی ختم ہو چکا ہے ۔ پہلے جہاں کہیں فوتگی ہوتی تھی تو دور دراز تک کہیں چالیس ایام سے قبل اگر کوئی شادی ہوتی ۔ تو وہاں ڈول باجے وغیرہ نہیں لائے جاتے تھے ۔ اب صورت حال بالکل الٹ ہے ۔ آئے روز کئی اموات کی خبر ملتی ہے ۔ کوئی طبعی موت مرتا ہے تو کوئی حادثاتی ۔ کوئی ایک ہفتہ قبل دلہا بننے والا کئی سپنے دل مین لیے رخصت ھو جاتا ھے ۔ تو کوئی دو اڑھائی سال کا ننھا پھول چھت سے گر کے ہمیشہ کے لیے ماں کی ممتا کو رُلا جاتا ہے ۔ اور انہیں داغ مفارقت دے جاتا ہے ۔ لیکن حرام ہے کہ ہمارے سر پہ جوں تک رینگتی ہو ۔ میت سامنے پڑھی ہوئی ھوتی ہے اور ہم کھل کھلا رہے ہوتے ہیں۔ مرنے والے کے گھر دوسرے دن پلاؤ اور روسٹ تیار ہو رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ تین روز تک شریعت نے سوگ منانے کا پابند کر رکھا ہے ۔ اب ڈول باجے والے دوسرے دن حاضر ہو جاتے ہیں۔ میں معذرت سے درخواست کروں گا ۔ چند دن قبل ہمارے علاقے کے انتھائی نیک بزرگ فوت ہوئے (کلساں راجہ عبدالحمید خان) اور اس سے کوئی دو چار دن بعد ہمارے قریب ہی شادی کی تقریب بھی تھی ۔ اس شادی میں رات کو ناچننے والیوں نے خوب رقص و سرور کے ساتھ محفل جمائے رکھی اور ڈھول باجے وغیرہ دن بھر چلتے رہے ۔ کسی ذی شعور شخص کو حیا تک نہ ائی کہ انہیں سرعام اس حرام کام سے روکتے۔ ہمارے قریب فوتگی ہوئی ہے ۔ اور رات بھر نوجوان اپنی آنکھوں کا زنا کرتے رہے ۔ سفید ریش بزرگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کنجریوں کو ناچتا دیکھتے رہے ۔ خدارا ! کہاں گئی ہماری حیا ؟؟؟؟ کہاں گیا ہمارا تہذیب و تمدن ؟؟؟؟ کیا یہ ہماری ثقافت ہے ؟؟؟؟ اس پوسٹ کا مقصد صرف دعوت فکر ہے کے خدا کیلیے نوجوانو! سوچو ہم جس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کلمہ گو ہیں کیا یہ انہی کی تعلیمات ہیں ؟؟؟ اور پھر ہمارے ہاں شادی کا مخلوط نظام سب سے بڑا فساد ہے ۔ کیا عورتوں نے بھی یہ سب کچھ کمینہ پن نہیں دیکھا ہو گا ؟؟؟؟ اللہ کا واسطہ ہے نوجوانو! اپنے والدین کو مجبور کرنا چھوڑو ۔ ان ڈھول باجوں کی لعنت سے اپنے پاکیزہ نکاح کی محفل کو بچاؤ ۔ ورنہ دنیا میں یہ فضول خرچی اور آخرت میں اللہ کے عذاب کا مستحق ہونے والی بات ہو گی۔ اگر جنگل کا ایک جانور مر جائے تو کئی دنوں تک جنگل میں بھی رات کو چیخنے کی آہ و بکا کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ کوے کائیں کائیں کر کے اپنے ساتھی کو اشکبار آنکھوں سے رخصت کرتے ہیں۔ اور کئی پرندے تو دوسرے پرندے کی وفات کے بعد وہ علاقہ تک بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اود ہم انسان ہو کر ، اشرف المخلوقات ہو کر بھی اپنے مرحومین کو ایصال ثواب کے بجائے ڈھول دھمال کی محفلین منعقد کروائیں ۔ تو انصاف سے بتلائیے ؟؟؟؟ کیا پھر ہم اشرف الخلوقات کہلوانے کے لائق ہیں ؟؟؟

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟