سبطین کاظمی کون ہے ؟


کیا آپ کو معلوم ہے کہ مولانا اعظم طارق شہید کے قتل میں گرفتار سبطین کاظمی دراصل ہے کون ؟ سبطین کاظمی ماضی کا مشہور شیعہ ذاکر اور متحرک سیاسی لیڈر ہے۔ اس کا تعلق پنڈ دادن خان سے ہے۔ پنجاب میں شیعہ تنظمیوں کے آپسی اختلاف کے ہنگام میں یہ کالعدم تحریک جعفریہ کے لیڈر ساجد نقوی کے ساتھ کھڑا رہا یہی وجہ تھی کہ موصوف کو دست راست کی حیثیت حاصل تھی۔ ساجد نقوی نے اس کی وفاداری کو دیکھ کر اسے پنجاب جیسے بڑے صوبے کا صدر بنا دیا۔ جب ایم ایم اے بنی تو ساجد نقوی کی پنجاب میں نمائندگی یہی کر رہا تھا اور یہ صوبہ پنجاب میں ایم ایم اے کا نائب صدر تھا۔ اسی کوٹے سے سبطین کاظمی نے 2002 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کتاب کے نشان پر ایم ایم اے کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں بری طرح ہارا ، یہ وہی الیکشن تھے جو مولانا اعظم طارق صاحب نے جیل سے لڑ کر جیتے تھے۔ یہ سبطین کاظمی کا ظاہری چہرہ تھا۔ اصل میں یہ تحریک جعفریہ کے دہشتگردی ونگ "سپاہ مہدی" کا سربراہ تھا ملک بھر میں اہل سنت کے خلاف عسکری کاروائیوں کے لیے تشکیلات یہی کرتا رہا تھا۔ ایران ، لبنان اور گلگت بلتستان کے شیعہ دہشتگردوں کے درمیان کوآرڈی نیشن اسی کے ذمے تھی۔ چنانچہ جب ایران کی طرف سے مولانا اعظم طارق صاحب کو نشانہ بنانے کا حکم ملا تو یہ سبطین کاظمی ہی تھا جس کے ذمے لگا کہ وہ اس مقصد کے لیے سکواڈ تشکیل دے۔ اس بار پنجاب پولیس اور دیگر اداروں میں موجود اعلی شیعہ افسران بھی بھرپور ساتھ دے رہے تھے۔ سبطین نے اس ہدف کے لیے اپنے معتمد ترین کمانڈوز کا انتخاب کیا۔ جن کو مکمل تحفظ اور مالی تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ حتی کہ اس دور میں پنڈی پولیس چیف نے بذات خود نشانہ بازوں کی بحفاظت جائے وقوع سے واپسی کی گارنٹی دی۔ یوں جا کر یہ اپنے اس مذموم ہدف میں کامیاب ہو کر اور بھاگ کر محفوظ مقام تک پہنچے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دہشتگرد سبطین کاظمی کے اپنے ہی گاؤں کے تھے۔ ان کو گلگت کے چند ساتھیوں کی مکمل مدد بھی حاصل تھی۔ بدقسمتی سے یہ قاتل چند سال قبل گرفتار ہوئے مگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر بری بھی کر دیے گئے۔ جیل سے نکلنے کے بعد قاتلوں کا یہ گروپ کچھ کالی وردی میں ملبوس کالی بھیڑوں کی مدد سے اپنے کام میں اب تک مصروف ہے۔
یہ ہے سبطین کاظمی بدبخت کا اصلی چہرہ۔۔۔۔ اس بدبخت کے خلاف ان قاتل دہشتگردوں کے بیانات واضح طور پر ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ کب اور کس طرح اس نے مولانا اعظم طارق صاحب کی شہادت کے سانحے کو پلان کیا۔ ساجد نقوی کی جن کو مکمل اشیرباد اور تعاون حاصل تھا مگر افسوس کہ ہمارے سیاسی دینی رہنماؤں اور جماعتوں کے نام نہاد اتحاد سے بنے ایم ایم اے کے شیلٹر کو کس طرح شیعہ دہشتگردوں نے اپنے لیے استعمال کیا۔ اور ہمارے دینی قائدین سب چیزیں عدالت اور پولیس کے ریکارڈ پر آنے کے باوجود صد افسوس کہ اب بھی ان کے ساتھ اتحاد کو مرے جا رہے ہیں۔ اور کچھ ہماری اپنی بھی کمزوریاں ہیں کہ ہم نے کبھی کھل کر اہنے ان اتحاد کرنے والے قائدین کے خلاف نہیں بولا۔ ہم لاشوں پر لاشیں اٹھا رہے ہیں اور ہمارے سینکڑوں ہزاروں کارکن لاپتہ کیے جا رہے ہیں مگر ہم نے ابھی تک صبر کا دامن تھاما ہوا ہے۔ ہم نہ تو اپنے ان اتحادی قائدین کے خلاف کچھ بولتے ہیں اور نہ حکومتی پالیسی کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے کارکن اب اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنی روش بھی کچھ نہ کچھ بدلنی پڑے گی۔ عقیدہ ختم نبوتؐ بل کی تبدیلی پر چند ہزار لوگوں نے فیض آباد میں دھرنا دے کر پورے ملک کو بلاک کر دیا اور ہم ہیں کہ قربانی کے بکرے بنے ہوئے ہیں۔ کیا دوبارہ بحالی سے قبل کیا ایم ایم اے کے اکابرہن واضح کریں گے کہ انہوں نے بیسیوں قتل میں نامزد ساجد نقوی ، سبطین کاظمی جیسے قاتل کے سرپرست کو کیوں ساتھ ملایا ؟ کیا یہ سب حقائق ان قائدین سے پوشیدہ ہیں یا وہ جان بوجھ کر امت مسلمہ کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟؟؟

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟