کسان بیچارہ


پاکستان کی ترقی کا زیادہ تر انحصار معیشت پر ہے اور پاکستان میں سب سے زیادہ پریشان و بدحال بھی بیچارہ کسان ہی ہے۔ ایک مثال مشہور ہے کہ جس ملک کا کسان خوشحال ہو گا وہ ملک خوشحال ہو گا اس ترقی کی مثال دیکھنی ہے تو جاؤ چین کو دیکھو۔ میں یہاں زیادہ مثالیں نہیں دیتا۔ بس اتنا کہوں گا کہ جس ملک کا کسان بدحال ہو گا وہ ملک بدحال ہو اس کی مثال دیکھنی ہے تو اپنا پاکستان دیکھ لو پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل کسانوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اور کسان کو کسان ہونے کی سزادی جا رہی ہے۔ ساری دنیا میں اصول ہے کہ کسانوں کو سہولیات دی جاتی ہیں جبکہ اپنے ملک پاکستان میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں کسان کو خودکشیوں پہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہاں کسان کی بربادی کے جتنے ذمہ دار ہیں وہ حکومت میں موجود ہیں اب آپ ہی بتائیں جس ملک کا مقتدرط طبقہ ہی اس کی جڑیں کاٹے گا وہ ملک خاک ترقی کرے گا ؟؟؟ اس بربادی کا ایک حد تک ذمہ دار خود کسان بھی ہے جو باآسانی اس مافیا کا شکار بن جاتا ہے۔ یہاں زراعت کی بربادی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب صاحبان اقتدار نے شوگر ملز لگانا شروع کیں جن کو چلانے کے لیے گنا کاشت کرنے کی ترغیب دی گئی اور فوائد بتا کر کسان کو شکار کیا گیا۔۔۔۔۔اب جب کسان نے گنا کاشت کر لیا اور اس پر سارا سال محنت بھی کر لی پھر باری آئی مل مالکان کی انہوں نے فوری پرمٹ کا اجراء شروع کر دیا کچھ عرصہ کام اسی طرح چلتا رہا اور گنے کی کاشت بڑھتی گئی اسی طرح شوگر ملز کی تعداد بھی۔ اس کا زیادہ اثر جنوبی پنجاب میں ہوا جہاں لاتعداد شوگر ملیں لگائی گئیں اور سب کی سب صاحبان اقتدار کی ہیں صرف اپنے ضلع رحیم یارخان کی بات کروں تو 8 شوگر ملیں ایک ضلع میں موجود ہیں جن میں سے ایک چوہدری شوگر ملز بند پڑی ہے باقی چل رہی ہیں جبکہ کسان کو نہ تو پرمٹ مل رہا ہے اور نہ ہی اس کی شنوائی ہو رہی ہے۔ پھر شوگر ملز کی پالیسی یہ بھی ہوتی ہے کہ قریب والے علاقوں سے گنا دیر سے اٹھاتے ہیں جبکہ ان کا اپنا گنا ہزاروں ایکڑ رقبے پر ہے جس کو یہ مالکان ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بعد جس زمیندار نے مل سے قرضہ لیا ہو گا اسے پرمٹ ملے گا اس کے بعد اگر گنجائش ہو گی تو چھوٹے کاشتکار کو پرمٹ ملے گا ورنہ اس کا گنا سڑتا ہے سڑ جائے ، برباد ہو جائے ، کسان خودکشی کرتا ہے کرلے ، نہ حکومت کو پرواہ ہے نہ مل مالکان کو۔۔۔۔۔
جنوبی پنجاب کی جو شوگر ملیں بند کی گئی عدالتی حکم پر اس کے پیچھے بھی ایک معروف سیاستدان کا ہاتھ ہے ج کہ خود کئی ملوں کا مالک ہے مگر منافقت کی انتہاء دیکھیے کہ نہ خود وہ گنا خریدتا ہے اور نہ ہی دوسری شوگر ملز چلنے دیتا ہے۔ روزانہ خبریں آتی ہیں کہ آج 8 ایکڑ کو کسان نے آگ لگا دی ہے ، آج اتنے کو آگ لگا دی گئی ہے ، آج ایسے ہو گیا آج ویسے ہو گیا۔۔۔۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کسان کب تک خود پہ ظلم کرتے رہیں گے؟؟؟ کیا گنے اور کماد کے علاوہ کسی اور فصل میں خدا نے روزی نہیں رکھی ہے ؟؟؟ کیا جن علاقوں میں گنا کاشت نہیں ہوتا وہ لوگ بھوکے مر گئے ہیں ؟؟؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لوگ زیادہ خوشحال ہیں۔ گنے کے کاشتکاروں سے میں گارنٹی سے کہتا ہوں اگر ایک سال سارے جنوبی پنجاب کے تمام کاشتکار یہ تہیہ کرلیں کہ اب کماد کاشت نہیں کریں گے تو یقین مانیں ان فرعون مل مالکان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی مگر بات یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون ؟؟؟ بھائیو! اپنے آپ پہ ظلم مت کرو ، ان مل مالکان کو رگڑا لگاو ورنہ یہ عدالتیں ، یہ سیاستدان ، یہ جاگیردار آپ کو کچا چبا جائیں گے۔ بعض عدالتوں میں منصف نہیں دلال بیٹھے ہیں جہاں سےپیسہ ملے گا یہ طوائف کی طرح اسی کے پاس ناچیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟