قصور کی آٹھ سالہ زینب


بای ذنب قتلت ؟ قصور کی آٹھ سالہ زینب سپارہ پڑھنے گھر سے نکلی تو کسی درندے کے وحشی پن کا شکار ہو گئی اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی ہے خون میں لت پت اس پھول کی لاش وہاں پڑی ہے جہاں لوگ اپنے گھروں کا گند پھینکتے ہیں پورے پاکستان میں اعلان کیا جاتا ہے یہ جس کی بھی بیٹی یا بہن ہو آ کر اس کی میت وصول کر لے لاش سے دو فٹ کے فاصلے پر ایک نورانی قاعدہ ملا ہے جس پر اسکا نام زینب درج ہے جسم پر کچھ زخموں اور دائیں گال پر تھپڑوں کے نشان ہیں ایک پاوں میں پنک کلر کی جوتی جبکہ دوسرے پاؤں میں صرف جراب ہے۔ لاش سے کچھ فاصلے پر ایک جیکٹ ملی ہے جس کی ایک جیب میں دس روپے کا نوٹ ، ربر ، پنسل اور پلاسٹک کی چھوٹی سی گیند ہے اہلِ محلہ نے چادر ڈال کر اس کو ڈھانپ دیا ہے اور لواحقین کی تلاش ہے غور سے دیکھیے کہیں یہ آپ کی بیٹی یا بہن تو نہیں ؟ ہائے کاش ! یہ معصوم جان پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔ او کمینو ! اسے کس جرم کی سزا دی ہے تم نے ؟ اس معصوم جان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والو! تم تو کتے سے بھی بدتر نکلے ۔ تم سے جنگل کا بھیڑیا اور سور بھی اچھے ہیں۔ اس بچی کے ساتھ زیادتی ؟؟؟؟ اف اللہ زمین کیوں نہ پھٹی ؟ آسمان کیوں نہ گرا ؟ ان خونخوار درندوں کو زمین نے نگل کیوں نہ نگلا ؟ واقعی یہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن جب یہ انسان خواہشات نفسانی کی ہوس میں گرفتار ہو جائے تو پھر یہ جانور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ۔ ان کے کانوں میں قوت شنوائی ہونے کے باوجود یہ سن نہیں پاتے آنکھین سلامت ہونے کے باوجود بصارت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں تب اؤلئک کالانعام بل ھم اضل کہ یہ چوپائیوں سے بھی ابتر ہو جاتے ہیں۔ اس معصوم بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کیلیے گئے تھے کہ انسان دشمن کمینوں نے اس پھول جیسی معصوم گڑیا کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا ۔ اور بس یہاں تک ہی نہیں اسے گھسیٹ کر اور پتہ نہیں کن کن اذیتوں سے دوچار کیا ہو گا۔ اور پھر گلا گھونٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سُلا دیا۔ ارے دنیا کے منصفو ! ججو ، پولیس آفیسران کیا تمھاری کسی لخت جگر کے ساتھ تاریخ کا یہ بدترین واقعہ رونما ہوتا تو کیا اب تک وہ قاتل یوں ہی دندناتے پھر رہے ہوتے ؟ وہ ظالم اب تک پس زنداں کیون نہیں ؟ کیا اس کے والدین کو اس سے محبت نہیں تھی ؟ اس والدہ کے دل سے پوچھو ؟ جو عبادت کی غرض سے بیت اللہ شریف جیسی مقدس جگہ پہ نہ جانے اپنی بیٹی کے لیے کیا کیا دعائیں مانگ رہی ہوئی ہو گی ؟ اس کے دل میں اس معصوم کے لیے کیا کیا ارمان ہوں گے ؟ وہ باپ جسے اپنی بیٹی کو ایک کانٹا چبھنا بھی گوارا نہ تھا ؟ بھلا اس پہ کیا بیت رہی ہو گی ؟ اللہ ہمارے معاشرے سے ان ناسور خونخوار خواہشات کی تکمیل میں اندھے لوگوں کو تباہ فرما اور ارباب اقتدار کو غیرت و حمیت عطا فرما ۔ تاکہ وہ قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح بیٹیوں کو غیروں کے حوالے نہ کریں۔ آج دل بہت مغموم ہے۔ افسوس ایسا کہ بیان نہ ہو پائے۔ یہاں مجرم جب جرم کرتا ہے تو بلا خوف و خطر جرم کرتا ہے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں قاتل قتل کے تیسرے روز جیل سے نکلتے وقت مونچوں کو تاؤ دیتے ہوئے وکٹری کا نشان بنا کر نکلتے ہیں ، جج دلال بنے پھرتے ہیں ، پولیس وال بک چکے ہیں اب صرف اپنے قتل کا انتظار کر لو کیونکہ قصاب خانے میں موجود تمام جانور صرف ذبح کی جاتے ہیں۔ اور بیٹیاں تو پھر بھی کمزور ہوتی ہیں۔ آو بیٹیاں جلا دیں ! کہ شاید پھر انصاف ہو جائے! میں اپنی مریم جلاتا ہوں ، تم اپنی ماریہ جلا ڈالو! بدن کو خاک کر ڈالو! ناموس بچانی ہے ، یا انصاف چاہتے ہو ؟ لختِ جگر کو بھول نہیں سکتے تو ، بلکتی ممتا پر ترس نہ کھاو! اگر انصاف چاہتے ہو! تو گھر کے آنگن میں نہیں! شہر کے بیچ چوراہئے پر! بیٹیاں جلا ڈالو! کہ یہ انصاف کی راہ میں حائل ، چند بھیڑیوں کی نظر میں ہیں! یہ بھیڑیے جو قابض ہیں! ہماری قسمت پہ ، یہ بھیڑیے جو جھکا دیتے ہیں ، عدل کے ترازو کو! یہ بھیڑیے جلا ڈالو! یہ ترازو پھونک ڈالو! ورنہ میں اپنی مریم جلاتا ہوں ، تم اپنی ماریہ جلا ڈالو ، کہ شاید پھر انصاف ہو جائے

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟