طاقت کے نشے نے میں دھت حکمران


مریم نواز کی بیٹی کے دیور نے شراب کے نشے میں پولیس والے پر گاڑی چڑھا کر قتل کر دیا مریم نواز کے حکم پر پولیس نے ملزم کو موقع سے بھگا دیا. گاڑی پولیس ناکے پر چڑهانے والا اور ایک پولیس والے کی جان لینے والا ملزم مریم نواز کے سمدهی کا بیٹا نکلا. شاباش حکمرانو! تمہیں شاباش. اس ملک میں عدالتوں میں جانا بالکل فضول ہے عدالت تب جاؤ جب تم طاقتور ہو یا پھر پیسہ زیادہ ہو. اس ملک میں پہلے کس کو انصاف ملا جو ابھی ان کو ملے گا اس سے پہلے بلوچستان کا ایک نشئی ہمارے قریبی گاؤں کے ایک پولیس والے کو شہید کرتا ہے اور اب ایک اور نشی لاہور میں پولیس والے کو شہید کرتا ہے. ملک میں انصاف کا حصول صرف حکمرانوں کے لیے ہے جس کی چوری ثابت ہونے کے بعد بھی آج وہ آزاد پھر رہا ہے اگر اس کی جگہ کوئی عام آدمی ہوتا تو آج اس کو گرفتا پہلے کرتے اور تفتیش بعد میں کرتے. اور اس کا دوسرا مجرم باہر ابو ظہبی میں مجرا پارٹی اٹینڈ کر رہا ہے وہ جو لال مسجد کے ہزاروں معصوم بچوں کا قاتل ہے , بلوچستان , سوات و زیراستان کے بے گناہ لوگوں کا قاتل ہے. ملک کا قانون اُس کا کچھ نہیں کر سکتا ہے تو میں لعنت بیھجتا ہوں ایسے قانون پہ. کیا فائدہ ایسی عدالتوں کا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ قوم تب تباہ ہوتی ہیں جب ان کے ہاں غریب کے لیے قانون الگ اور امیر کے لیے قانون الگ ہو آج کل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث ہمارے ملک پہ بالکل فٹ آ رہی ہے۔ غریب بے چارے جو ان حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں تعلیم ، مکان اور علاج معالجہ تو دُور کی بات ہے۔ پھر جب یہ غریب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو تین روٹیاں یا دو تین کلو کپاس کی چوری کرتے ہیں تب قانون حرکت میں آتا ہے اور انہیں بہت بڑا مجرم بنا کر ہی دم لیتا ہے۔ جییلوں کے اندر بھی قانون کی درجہ بندیاں کی گئی ہیں۔ جب کوئی بڑا جاگیردار یا سیاست چند روز کے لیے جیل جاتا ہے تو اُسے اے کلاس دے دی جاتی ہے جس میں اے سی والا کمرہ ، بیڈ ، ٹی وی اور تمام آسائشوں کے ساتھ ساتھ دو غریب قیدی بھی نوکر کے طور پر دے دیے جاتے ہیں جو ان کے کمرے کی صفائی ستھرائی ، کپڑے دُھلائی اور روزانہ جوتے پالش کر کے دیتے ہیں۔ اور جو تھوڑا کم پیسے والا ہو اُسے جیل میں بی کلاس دی جاتی ہے۔ اُسے بھی تھوڑی کمی کے ساتھ اے کلاس والی سہولتیں میسر ہوتی ہیں جبکہ باقی عام قیدی خواہ وہ گناہ گار ہوں یا بے گناہ وہ سالہا سال جیل کے فرش پر سوتے ہیں۔ اُن کے ساتھ کیا کیا بیتتی ہے اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس مختصر سی تحریر میں اس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

دعوت اسلامی کی مسلک اعلٰی حضرت سے نفرت

مولانا فضل الرحمان کی مذہبی و سیاسی خدمات

امام کعبہ کو ماں نے دُعا دی یا بد دعا ؟